کرسی ایک چیز ہے جو انسان کو پستی کی گہرائیوں میں لے جاتی ہے۔ یہ چور، قاتل، وحشی، خودغرض ہر چیز بنا دیتی ہے۔ پرانے زمانے میں یہ کرسی تخت کی صورت ہوتی تھی اور تاریخ شاہد کہ اس کرسی نے کس کس طرح سے انسانیت کی تذلیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کرسی کی خاطر انسان نے اپنے سگے رشتوں کے خون بہانے سے بھی دریغ نہ کیا۔ یہ آج کی نئے دور کی بات نہیں ہے بلکہ ایسا ہر دور میں ہوتا چلا آیا ہے۔ کرسی کی خاطر جنگیں سازشیں، ریشہ دوانیاں انسانوں کی خرید و فروخت سب کچھ ہوتا رہا۔ یہی کچھ ہمارے ملک میں ہوا لیکن ہمارے ملک کی ایک بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ یہاں لوگ بٹے ہوئے ہیں سب نے اپنے اپنے آقا بنائے ہوئے ہیں اور ان کی غلامی سے نکلنے کو تیار نہیں ہیں۔ عالم یہ ہے کہ ایوب خان کے جانے کے بعد قوم مختلف سیاسی پارٹیوں میں بٹ گئی۔ برائی کی یہ بات تو نہیں ہے کہ انسان اپنی پسند کی سیاسی پارٹی کو قبول کرے۔ ہر شخص کا اپنا ایک سیاسی نظریہ ہوتا ہے جس کے مطابق وہ اپنی پارٹی چن لیتا ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنا سیاسی نظریہ دوسرے پر زبردستی ٹھوکنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لئے وہ دوسرے شخص سے لڑائی بھی کر لیتا ہے۔ مار پٹائی بھی ہو جاتی ہے جو باقاعدہ ایک دشمنی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ کوئی شخص کسی دوسرے کو اس کا سیاسی حق استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور سیاسی پارٹی کا لیڈر اس شخص کے لئے پیر و مرشد کی حیثیت رکھتا ہے جس کے پیچھے وہ اپنی جان بھی دینے کو تیار ہے جب کہ تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کا کردار سب کے سامنے ہے۔ پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت کے بعد جو شخص جس سیاسی پارٹی کے ساتھ چپک گیا وہ اسے چھوڑنے کو کسی طور تیار نہیں ہے چاہے وہ پارٹی کتنی بھی چور ہو۔ ملک کو اور نسلوں کو کتنا بھی نقصان پہنچایا ہو سب قبول ہے۔ حد یہ ہے کہ اگر کوئی بھی سیاسی پارٹی کا لیڈر کرپشن کی زد میں آتا ہے اپنے منہ سے بھی قبول کر لیتا ہے کہ ”ہاں میں نے چوری کی ہے“ لیکن اس کے مرید بھی اس کی حمایت میں دلیلیں دیں گے اور اسے بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ کوئی بھی شخص کسی بھی اپنی سیاسی پارٹی کے بارے میں اپنے موقف سے ہٹنے کو تیار نہیں لیکن 2018ءمیں جب اس موروثی سیاست کا خاتمہ یعنی موروثی سیاست کی حکومت کا خاتمہ ہوا کیوں کہ موروثی سیاست تو ابھی تک چل رہی ہے اور یہ بھی کہنا مشکل ہے کہ موروثی حکومت کا خاتمہ وقت ہے یا ہمیشہ کے لئے ہے۔ بہرحال پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد ایک واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی کہ پی ٹی آئی کہ کارکن، سپورٹر یا حمایتی آنکھیں بند کرکے ہر اچھے برے عمل پر ہاں جی جناہ نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ پی ٹی آئی کا کوئی وزیر کوئی اسمبلی ممبر یا کوئی بھی لیڈر اگر غلط بات یا عمل میں ملوث ہو تو یہ لوگ اس پر تنقید کرتے ہیں اور اسے بُرا کہتے ہیں جب کہ ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے چاہنے والے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو ماضی میں کسی بھی سیاسی پارٹی سے وابستہ نہیں رہے اور ہمیشہ غیر جانبدار رہے ہیں۔ یہ ایک خوش آئند تبدیلی ہے۔ بہرحال کرسی ہمیشہ سازشوں، ریشہ دوانیوں میں گھری رہی ہے۔ فوج غیر جانبدار رہ کر بھی کہیں نہ کہیں سیاسی پارٹی کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اور ملک کی سیاست پر اثر انداز ہوتی ہے۔ شفافیت تو اب کسی بھی ادارے میں ناپید ہے۔ وہ زمانہ چلا گیا جب سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے سپہ سالار ہوتے تھے اپنے اور اپنی قوم کے ایمان کی حفاظت کے لئے میدان جنگ میں یا سیاسی میدان میں اترا کرتے تھے جو کبھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کرتے تھے۔
دور حاضر ہی کا ایک شخص اور بھی تھا، دور حاضر ہی کہا جائے گا کیونکہ یہ شخص میدان میں اس وقت اترا جب پاکستان بن چکا تھا۔ یہ مصر کا رہنے والا محمد نجیب تھا جو 1901ءمیں سوڈان میں پیدا ہوا تھا۔ اس زمانے میں مصر اور سوڈان تقریباً ایک بی تھا۔ محمد نجیب کا خاندان فوج میں تھا حکومت برطانیہ کے زیرنگیں تھی۔ نجیب کے والد نہیں چاہتے تھے کہ نجیب فوج میں جا کر برطانیہ کے اشاروں پر ناچے لیکن نجیب نے والد کی خواہش کے برعکس فوج میں جانا پسند کیا۔ اس نے قانون کی سند بھی حاصل کی۔ پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کیا اور مختلف زبانوں پر عبور حاصل کیا۔ اس زمانے میں مصر کا بادشاہ شاہ فاروق تھا۔ وزیر اعظم بنانے کے لئے برطانیہ سے اجازت لینے کی باری آئی کیونکہ وزیر اعظم بھی برطانیہ کی مرضی سے بنتا تھا۔ نجیب نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور شاہ فاروق کو اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔ اس کا کہنا تھا کہ جب آرمی اپنے بادشاہ اور ملک کا دفاع نہیں کرسکتی اور انگریزوں کے رحم و کرم پر ہو تو مجھے یہ یونیفارم پہنتے ہوئے شرم آرہی ہے۔ شاہ فاروق نے اس کا استعفیٰ منظور نہیں کیا۔ نجیب مصر میں برطانیہ کا عمل دخل پسند نہیں کرتا تھا۔ وہ سخت طیش میں تھا۔ یہ استعفیٰ 1942ءمیں پیش کیا گیا جو نامنظور ہوگیا۔ نجیب اپنی بہادر اور محنت کی وجہ سے ترقی کرتا گیا۔ 1948ءکی فلسطین کی جنگ میں اس نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ وہ جنگ کے دوران بھی معمول کے مطابق قرآن شریف کی تلاوت کیا کرتا تھا۔ 1949ءمیں نجیب نے فوجیوں کے ایک گروپ کی تحریک میں شمولیت اختیار کی جس کا سربراہ کرنل جمال عبدالناصر تھا جب کہ نجیب ترقی کرکے میجر جنرل بن چکا تھا۔ تحریک کا مقصد شاہ فاروق کا تختہ گرانا اور مصر کو انگریزوں کے تسلط سے نکالنا تھا۔ آہستہ آہستہ تمام آرمی نجیب کے ساتھ ہو گئی اور آفیسر آرمی کلب کے انتخابات میں شاہ فاروق کی مرضی کے خلاف نجیب کی جیت ہوگئی۔ شاہ فاروق نے غصے میں آکر آفیسر کلب کی کمیٹی کو برخاست کردیا۔ اسے نجیب کی طرف سے بغاوت کی خبر مل چکی تھی۔ بغاوت تحریک کا لیڈر نجیب بن چکا تھا لہذا 1952ءکو باقاعدہ انقلاب کا اعلان کردیا گیا۔ عوام کی حمایت سے شاہ فاروق کا تختہ الٹ دیا گیا اور اسے جلاوطن کردیا گیا۔ 17 ستمبر 1952ءکو شہنشاہیت کا خاتمہ ہوا اور نجیب نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لیا۔ انقلاب کے 11 مہینے بعد مصر اور سوڈان کا نیا نام رکھ کر محمد نجیب نے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ نجیب وزیر اعظم ہی تھا اور صدر بھی اور انقلابی کونسل کا چیئرمین بھی تھا۔ جمال عبدالناصر نائب وزیر اعظم تھا۔ حکومت سنبھالنے کے 4 مہینے بعد ہی جمال عبدالناصر نے کہا کہ مصر میں فوجی حکومت ہونا چاہئے کیونکہ فوج ہی انقلاب لائی ہے جب کہ نجیب کی خواہش جمہوری حکومت کی تھی۔ اختلافات بڑھتے گئے۔ اکثریت نے جو کہ سب فوجی تھے جمال عبدالناصر کا ساتھ دیا۔ فروری 1954ءمیں نجیب سے زبردستی استعفیٰ دلوا کر جمال عبدالناصر وزیر اعظم بن گیا لیکن عوام کے احتجاج پر نجیب کو دوبارہ صدر بنا دیا گیا لیکن اب تمام اختیارات جمال عبدالناصر کے پاس تھے۔ نجیب صرف نام کا صدر تھا۔ نجیب نے اصولوں پر کبھی سودے بازی نہیں کی اس کو اپنی حیثیت بے معنی محسوس ہوئی اور اس نے استعفیٰ دے دیا۔ جمال عبدالناصر نے اس پر جھوٹے الزامات لگا کر جیل میں ڈال دیا۔ اٹھارہ سال بعد انوا السادات نے اسے رہا کردیا اور رہائی کے بارہ سال بعد 1984ءمیں محمد نجیب انتقال کر گئے۔ ایسے مرد آہن صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔
