پاکستان میں یوں تو روز اوّل ہی سے اسٹیبلشمنت کی بالادستی قائم ہو چکی تھی مگر طریقہ کار کچھ یوں رہا کہ چند سالوں میں عوام کو سیاسی لولی پاپ دے کر مختلف سدھائے ہوئے سیاستدانوں کو منظرعام پر لایا جاتا رہا مگر کنٹرول پردے کے پیچھے والی قوتوں کے پاس ہمیشہ سے رہا ہے۔ آج ملک کی معاشی صورتحال نہ گفتہ بہ ہے۔ ملک کو مختلف ٹیکس اور اشیاءکی قیمتیں بڑھا کر چلانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ملک کی حفاظت کے لئے ایک بڑی فوج مامور ہے جو کہ پاکستان جیسے غریب ملک کے لئے ایک مہنگا اور مشکل سودا ہے۔ مگر نہ صرف حاضر فوجی بلکہ ریٹائرڈ فوج کے لوگ، ان کی پینشن اور انہیں حاصل مراعات کو اگر دیکھا جائے تو ملک کی معیشت میں بڑا حصہ اسی اژدھے کا پیٹ بھرنے میں نکل رہا ہے اور چونکہ ملک کی معاشی صورتحال نہ گفتہ بہ ہے اور پٹاری میں پیسہ بھی کم ہے تو جو طاقتور ہے وہی بندوق کے زور پر مراعات حاصل کررہا ہے۔ دوسری جانب سیاستدانوں کی کرپشن پر تو گرفتاریاں اور سختیاں جاری ہیں جب کہ کھلا تضاد وہاں نظر آتا ہے کہ جب کسی فوجی افسر یا جج کا کوئی اسکینڈل سامنے آجائے۔ وہاں تمام احتساب کرنے والے ادارے بغلیں جھانکتے نظر آتے ہیں حتیٰ کہ دکھاوے کے طور پر ہی سہی ان افراد کو کٹہرے میں لانا ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا جاتا ہے اور اسے کسی بین الاقوامی سازش سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے اور یہی تضاد ہے کہ جس کے سبب آج سب کی زبانیں کھل رہی ہیں اور سب کی توپوں کا رُخ اسٹیبلشمنٹ کی جانب ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو احتساب عدالت نے طلب کرلیا ہے اور انہوں نے واضح الفاظ میں کھلی دھمکی دے ڈالی ہے۔ گزشتہ دنوں شہباز شریف کی گرفتاری نے بھی مسلم لیگ نواز کے منہ کھول دیئے ہیں اور کھلم کھلا مطالبہ کیا جارہا ہے کہ جنرل عاصم سلیم باجوہ کا احتساب کیوں نہیں کیا جارہا اور اگر شہباز شریف کو گرفتار کیا جا سکتا ہے تو عاصم سلیم باجوہ کو گرفتار نہ کرنے کی کیا وجہ ہے؟ نظر یہ آتا ہے کہ اگر ان معاملات کو سنجیدگی سے نہ دیکھا گیا تو عوام اور اداروں کا کوئی تصادم ملک میں کوئی انتشار برپا نہ کردے کیونکہ اسرائیل، امریکہ اور بھارت تینوں کا ٹارگٹ اس وقت پاکستان ہے اور پاک چائنا پروجیکٹ سی پیک جھگڑے کی جڑ ہے جسے پاکستان کسی صورت ختم نہیں کرنا چاہتا۔ دوسری جانب پاکستان کی ایٹمی قوت دشمنوں کی آنکھ میں برسوں سے کھٹک رہی ہے اور کوئی ایسا بہانہ تلاش کیا جا رہا ہے کہ جس کے نتیجہ میں پاکستان کے ایٹمی صلاحیت پر کنٹرول حاصل کیا جا سکے اور یہ سب کچھ ناممکن ہے جب تک پاکستان کو خانہ جنگی کی جانب نہ دھکیلا جائے چنانچہ اسٹیبلشمنٹ ہو یا سیاستدان سب کو سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا اور اس جنگ کو کسی ایسے موڑ پر نہیں لے جانا ہو گا جہاں سے واپسی ملک کو کھوکھلا کر دے۔
406