آج کا کالم انسانی نفسیات اور ان کے رویوں پر مبنی ہے۔ آج میں آپ کو ایسا ہی ایک واقعہ بتاتا ہوں۔یہ مجھے میری بھتیجی سارہ نے پچھلے دنوں سنایا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ اس کی سہیلی کا ڈیڑھ سال کی عمر کا ایرانی بِلّا ہے۔یہ اپنے گھر کے باغ میں روزانہ دس منٹ کے لئے نکلتا تھا۔ایک دن ایسا ہوا کہ وہ باغ میں نکلا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے نظروں سے اوجھل ہو گیا۔حالاں کہ سہیلی کی دادی باہر لان ہی میں بیٹھی تھیں۔ ادھر ادھر تلاش کیا مگر نہیں ملا تو سی سی ٹی وی کیمرے کی ریکارڈنگ دیکھی۔اس میں پتا چلا کہ وہ باہر گیراج میں ان کی اپنی کھڑی گاڑی کے بونِٹ کی طرف سے چڑھا تھا پھر سارہ کا دیور وہ گاڑی لے کر چلا گیا۔فوراََ دیور کو فون کیا گیا کہ گاڑی کہاں گئی۔پتا چلا کہ یہ طارق روڈ پر اپنے چینی رستوراںمیںلے گیا تھا جو وہاں کی پارکنگ میں کھڑی تھی۔ وہاں آس پاس پ±چھوایا کہ کسی نے ایک سفید ایرانی بلی دیکھی ہے؟ دو تین افراد نے ایک سی بات کہی کہ اس حلیہ کی بلّی ایک فقیرنی لے جاتے ہوئے دیکھی تھی۔ یہ اطمینان ہوا کہ بلی طارق روڈ پر ہی ہے۔طارق روڈ پر زیورات اور دیگر تمام دکانوں پر درخواست کی کہ ایک فقیرنی کو کئی ایک لوگوں نے دیکھا ہے کہ وہ ایک قیمتی ایرانی بلی کو لے جا رہی تھی۔لہٰذا انہیں اجازت دی جائے کہ وہ سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج کے ذریعے اس معاملے کی چھان بین کر سکیں۔ اس سب میں دو دن لگ گئے۔محنت رنگ لائی اور فقیرنی کو بلی لے جاتے ہوئے دیکھ لیا گیا۔ ان میں سے ایک بہتر پرنٹ لے لیا گیا۔ سارہ کی سہیلی وہ تصویر لے کر طارق روڈ کے تمام فقیروں کے پاس گئی۔ اور کہا کہ جو فرد اس فقیرنی کو میرے پاس لائے گا میں اس کو اور خود اس فقیرنی دونوں کو انعام دوں گی۔جمعہ کو سہیلی کو اطلاع ملی کہ وہ فقیرنی مل گئی ہے اور اسٹائلو ، جوتوں کی دکان پر انتظار کر رہی ہے۔اس نے بتایا کہ اسے وہ بلی ملی تھی اور وہ بلی کو سامنے ایک ریستوراں کے منیجر کے پاس لے گئی جس نے مجھ سے بلی ہزار روپے میں خرید لی۔ مجھے کیا پتا تھا کہ وہ تمہاری بلی ہے۔مجھے تو وہ سڑک پر ملی تھی سو میں نے بیچ دی۔سہیلی نے فقیرنی سے کہا کہ مجھے اس منیجر کے پاس لے کر چلو۔یہ دونوں وہاں گئے۔منیجر نے بات سنی پھر اندر چلا گیا اور دس منٹ بعد آکر کہا کہ میں نے تو وہ بلی ایمپریس مارکیٹ میں بیچ دی تھی۔ سہیلی نے روہانسو ہو کر کہا کہ چلیں آپ ہمیں وہاں لے کر چلیں۔کہنے لگا کہ میں نے پتا نہیں کس کو بیچی تھی اور اس نے ان کے ساتھ جانے سے صاف انکار کر دیا۔ سہیلی کے سسرال والوں نے اس پر بہت دباﺅ ڈالا۔اس کی ساس تک نے منیجر کو فون کیا کہ بیٹا وہ بلی ہمارے بچوں کی طرح ہے۔ اسے اللہ رسول کا واسطہ دیا کہ ہمارے ساتھ ایمپریس مارکیٹ چلو۔بالاخر وہ ان کے ساتھ مذکورہ مارکیٹ جانے پر رضامند ہو گیا۔وہاں اس نے سرسری طور پر دیکھ کر کہا کہ وہ بندہ یہاں بیٹھا تھا لیکن اب نہیں ہے۔ سہیلی نے (بلیوں کے فروخت کی ) پوری مارکیٹ چھان ماری۔اگلے روز دوپہر کو وہ پھر گئی اور جانور فروخت کرنے والے ایک ایک آدمی سے معلومات لیں نیز اس بلے کی تصویر اور اپنا رابطہ نمبر بھی دیا۔ وہاں بکنے والے جانوروں کی حالت دیکھ کراسے مزید رونا آرہا تھا۔ ایک دن اور گزر گیا۔پھر رات کے دو بجے ایک فون آیا کہ مجھے پتا ہے آپ کا بلا کہاں ہے لہٰذا آ جائیں۔ اُس شخص نے پتا بھی بتا دیا۔ سہیلی نے شوہر سے بات کی جس نے کچھ خدشات ظاہر کئے اور کہا صبح جائیں گے لیکن میری دوست نے کہا کہ میرا دل کہتا ہے کہ یہ معلومات درست ہیں۔ شوہر اپنے چھوٹے بھائی اور دیگر پانچ چھ افراد کے ہمراہ طارق روڈ پر پہنچ گئے۔وہ ا سی رستوران کا کوئی ملازم تھا کہنے لگا کہ ہم سے باجی کی حالت نہیں دیکھی جاتی۔ منیجر آپ سے جھوٹ بول رہا ہے اور بلا اُسی کے پاس ہے۔میں نے اس سے کہا بھی کہ باجی پریشان ہے تم اس کی چیز اس کو دیتے کیوں نہیں۔اپنے ہزار روپے ان سے لے لینا تو وہ کہنے لگا کہ میں تو ان سے تگڑے پیسے نکلواﺅں گا۔ اس وقت رات کے تین بج چکے تھے۔ وہ انہیںگلشن میںواقع منیجر کے اپارٹمنٹ تک لے گیا۔ اِن لوگوں نے منیجر کو فون کیا کہ آپ نیچے آئیں اور ہمارا بلا واپس دیں۔اگر آرام سے یہ کام نہ کیا تو ہم شور مچا کر پورے محلے کو اکٹھا کروا لیں گے۔اس پر وہ کہنے لگا کہ میرے پاس کوئی بلی نہیں۔پھر اس کی بیوی باہر آئی اور کہا کہ ہاں آپ کی بلی ہمارے پاس ہے! آپ بلی لے جائیں۔اس کا شوہر کہنے لگا کہ میں نے ہزار روپے میں یہ خریدی تھی۔اس پرسہیلی کے دیور نے کہا کہ ہم آپ کو پانچ ہزار دیتے ہیں مگر ہماری چیز ہم کو واپس کر دو۔فضول میں کئی چکر ایمپریس مارکیٹ کے لگوا دیے۔منیجر کی بیوی نے کہا کہ ہم کو کوئی پیسے نہیں چاہیے۔ آپ اپنی چیز لے جائیں۔یوں صبح کے چار بجے وہ بلّا گھر واپس آیا۔ اس سارے واقعے کا ل±بِ لباب یہ ہے کہ پورا قصہ بیان کرنے کے بعد سارہ کو اس کی سہیلی نے بتلایا کہ اس فقیرنی نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا کہ بیٹا مجھے کیا پتا تھا یہ بلا تمہارے بچوں کے جیسا ہے۔میرا گناہ معاف کر دو۔ میں نے کہا کہ آپ کی تو اس قصے میں کوئی غلطی نہیں مگر وہ فقیرنی رو رو کے ہلکان ہو رہی تھی۔جب کہ دوسری طرف ایک ریستوراں کے کھاتے پیتے منیجر کی ہوس ختم ہی نہیں ہو رہی تھی لیکن اسی کی بیوی ایک پیسہ لینے کو تیار نہیں تھی حتیٰ کہ خرچ شدہ ہزار روپے بھی نہیں لئے۔وہ حیران ہو رہی تھی کہ ایک ہی واقعے میں کیسے مختلف انسانی رویے سامنے آئے ہیں۔ واقعی انسان کی اصلیت مصیبت میں ہی سامنے آتی ہے۔
101