ہمارے پیارے حضور اکرم نے جب اسلام کی تبلیغ کا آغاز کیا تو وہ بہت خاموشی سے لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچا رہے تھے اس کے باوجود مکہ کے لوگ ان کے دشمن ہو چکے تھے۔ آپ نے اسلام کے پیغام کی تبلیغ کھلم کھلا شروع کی تو لوگ ان کی جان کے دشمن ہو گئے ایک روز جب خانہ کعبہ کے سامنے تبلیغ میں مصروف تھے تو مکہ کے چند بہکے ہوئے نوجوانوں نے ان پر قاتلانہ حملہ کردیا۔ چاروں طرف سے ہتھیاروں سے حملہ آور ہو گئے۔ آپ لہولہان ہو گئے۔
یکایک ایک نوجوان بھاگ کر کہیں سے آیا اور حضور اکرم کے اوپر اپنے آپ کو کور کردیا اور مہلک ہتھیاروں کے وار اپنے جسم پر روکتا رہا اور بالآخر اپنی جان دے کر اس نے محسن انسانیت کی جان بحالی اور اسلام کا پہلا شہید بن گیا۔ وہ نوجوان حضرت خدیجہؓ کا جوان بیٹا اور حضور اکرم کا سوتیلا بیٹا تھا جس نے اپنے سوتیلے والد کی خاطر اپنی جان دے کر اسلام کے پیغام اور اپنے سوتیلے والد کی جان بچائی۔ سوتیلا بیٹا اور سوتیلے والد کا رشتہ سب سے نازک ترین اور مشکل ترین رشتہ ہوتا ہے جس میں نوجوان بیٹا اپنی ماں کے دوسرے شوہر کو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ہمیشہ اس طرح کے رشتوں میں ہے سبب رنجش ہی قائم رہتی ہے۔ حضور اکرم کے اوصاف حمیدہ اور آپ کے اخلاق ایسے ہوتے تھے کہ اپنے رشتے تو اپنے ہی ہوتے تھے، بڑے بڑے مخالفین جب ایک بار آپ کی ہستی کے حصار میں آئے تو وہ دل و جان سے آپ کے گرویدہ ہو جاتے۔ حضور اکرم کی ذات کی یہ خصوصیت تھی کہ جب آپ نے اسلام کی گواہی تک نہ دی تھی تو بھی لوگ ان کی سیرت اور حسن اخلاق کے گرویدہ تھے۔ آپ نے زندگی کے ہر پہلو پر ہر رشتہ پر عملی طور پر ثابت کرکے لوگوں کے سامنے اعلیٰ اخلاقی مثالیں پیش کیں۔ تاکہ آپ کی امت خاص طور پر اور عام لوگ اخلاقیات کے ان دائمی اصولوں کو اپنا کر انسانیت کے راستے میں اپنا کردار بخوبی ادا کر سکیں۔
دنیا میں جو بڑے بڑے اکابرین آتے رہے وہ اپنی تعلیمات کی بنیاد ان ہی اصولوں پر قائم کرتے اور دنیا میں اخلاقیات کے درس کو عام کرنے کے لئے اپنے اپنے انداز سے اس ہی نوعیت کی تعلیمات پیش کرتے رہے اس ہی طرح کے اخلاق حمیدہ کے نمونے۔ ہم حضور کے بعد ان کے ساتھیوںؓ میں جا بجا دیکھتے ہیں کہ کس طرح شیر خداؓ نے اپنے مخالف پہلوان کو پچھاڑ دیا اور بجائے اس کی گردن اڑانے کے اس کو چھوڑ کر ضبط و تحمل کی مثال قائم کردی۔ کسی طرح بیت المقدس کی فتح کے بعد جب غلام اونٹ پر سوار اور حضرت فاروقؓ اس کی لگام تھامے شہر میں داخل ہوئے اور عالمی مساوات کی مثال پیش کررہے ہوتے ہیں۔ کسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز ذاتی امور کی انجام دہی کے وقت سرکاری چراغ کی روشنی گل کر دیتے ہیں۔ بعد میں کس طرح ترک حکمراں حرم شریف کی تعمیر نو عقیدت اور احترام سے شروع کرواتے ہیں۔ اس ہی طرح دنیا کے مختلف مذاہب کے مانے والے اپنے اپنے نظریات کی بنیاد حضور اکرم کے دائمی اخلاقی تعلیمات سے متاثر ہو کر پیش کررہے ہیں۔ حضور اکرم کی تعلیمات ہندوستان اور پاکستان میں مختلف مسلمان اکابرین کے ساتھ ساتھ غیر مسلم مہاتماﺅں نے بھی اپنائیں ابھی پچھلی صدی میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ۔ سرسید شبلی نعمانی، الطاف حسین حالی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا مودودی اور مہاتما گاندھی کی تعلیمات میں بھی حضور کے اخلاق پر مبنی تعلیمات کے اثرات واضح دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے دنیا بھر کے عوام میں آپ کی تعلیمات کو بہت قدر منزلت حاصل رہی ہے، بہت سی قوموں میں ان تعلیمات کا اثر ان کے معاشرے میں بہت صاف دکھائی دیتا ہے اور جن قوموں میں اور جن معاشروں میں ان اخلاقیات کو اہمیت حاصل ہے وہ ہی معاشرے بے پناہ ترقی کے مراحل طے کررہے ہیں ان کے عام لوگوں کی عادتوں میں وہ ہی اخلاقیات صاف نظر آرہی ہے جس کا زیادہ اثر مسلمانوں میں نہ ہونے کے برابر ہے۔
مغرب کے ایک مفکر اور فلاسفر، پوپ، گریگوری نے اخلاقی نظریات 590ءمیں پیش کئے ان کا محور بھی اسلامی تعلیمات سے متاثر دکھائی دیتا ہے انہوں نے اپنے سات گناہوں تھیوری پیش کی جس میں انہوں نے جدید معاشروں کی تشکیل کو ان اصولوں کےبغیر بے اثر قرار دیا یعنی ان اصولوں کے بغیر کوئی بھی معاشرہ بہتر معاشرہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔
اگر یہ ہی اصول ہمارے معاشرے میں لاگو کئے جائیں تو اندازہ ہو گا کہ ہمارا معاشرہ کی نوعیت کیا ہے۔ جب بھی ہم اپنے معاشرے کی بات کریں تو پہلے مہاتما گاندھی کے نظریات سات گناہوں کا تصور پیش کیا گیا ہے ان اصولوں کو بھی اپنے معاشرے پر لاگو کرکے دیکھتے ہیں ان کے بیانات جو سات گناہ پیش کئے گئے ان میں سب سے پہلے گناہ، ہوس ہے جو ہمارے معاشرے میں عام ہے، خاص طور پر اعلیٰ طبقے میں موجود ہے، دوسری گناہ بسیار خوری یہ ہمارے ہر طبقے میں پائی جاتی ہے۔ تیسرا لالچ یہ بڑے لوگوں سے ہوتی ہوئی، نیچے تک موجود ہے، پھر کاہلی، یہ بھی خاص طور پر با اختیار لوگوں میں بے تحاشہ پائی جاتی ہے۔ اس کے بعد یہ ہمارا شدید غصہ، حسد، تکبیر، یہ بھی ہر طاقور میں اپنے سے کمزور کے مقابلہ میں بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ اگر سات گناہوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ سب گناہ اس معاشرے میں سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں جس معاشرے کے ہر فرد کے دل میں بظاہر اسلام سے رغبت اور حضور اکرم کی سیرت سے محبت ان لوگوں میں پائی جاتی ہے یعنی ان افراد کا دعویٰ تو یہ ہی ہے مگر عمل اس کے برعکس منفی۔ اب اگر پوپ گریگوری کے نظریات کو آکر اپنے معاشرے میں پرکھیں تو یہ ہی نتیجہ حاصل ہو گا کہ ان کے نظریات میں اصولوں کے بغیر سیاست گناہ ہے۔ یہ گناہ ہمارے ہر سیاسی لیڈر میں موجود ہے جو اس زمانے کے سب سے بڑے سیاست دان سمجھے جاتے ہیں اور چھوٹے درجے کے سیاست دان میں وہ بھی اس ہی راستے کے مسافر ہیں پھر کام کئے بغیر دولت، یہ وطیرہ بھی پاکستان کے تقریباً ہر ایک دولت مند میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے، ہر کوئی چاہتا ہے کہ بغیر محنت کے دولت حاصل کرلے اس کے لئے ہر جائز نا جائز طریقے اختیار کئے جاتے ہیں۔ اس ہی طرح اخلاقیات کے بغیر تجارت بہت سے تاجر ہمارے معاشرے میں تجارت میں فائدے اٹھانے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں آج کا بڑا تاجر جتنا بڑا جھوٹا ہے اتنا بڑا مانفع خور ہے۔ حرام کمانے میں مصروف ہے، اس کے بعد ضمیر کے بغیر خوشی، ہمارے معاشرے کے ہر بڑے طبقے میں لوگ اپنے آپ کو خوش رکھنے میں دوسروں کی حق تلفی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اور اپنے لئے چھوٹی سی خوشی حاصل کرنے کے لئے بے سوچے سمجھے ایسے اقدامات کرتے ہیں جس کے اثرات دوسرے فرد پر بہت مضر پڑتے ہیں اس طرح اپنا ایک پیسہ بچانے کے لئے دوسرے کی لاکھوں کا نقصان پہنچا دیتے ہیں۔ اس کے بعد کا نظریہ کردار کے بغیر علم، آج کا طالب علم ہو یا ان کے استاد وہ ایسی تعلیم کا فروغ دیتے ہیں جس سے وہ کردار سازی کرنے کے بجائے مادی فوائد حاصل کر سکیں وہ بجائے قوم کی کردار سازی کریں اپنے اپنے مقاصد کی تکمیل میں مصروف رہتے ہیں۔
اس ہی طرح انسانیت کے بغیر سائنس، یعنی سائنس کا فروغ انسانیت کو تباہی کی جانب پہچانے میں ہو رہا ہے۔ سائنس کو ایسے مہلک ہتھیاروں اور جراثیم کے اجزاءمیں استعمال ہو رہے ہیں جس سے عالم انسانیت دن بہ دن تباہی کی طرف رواں دواں ہے۔ سائنس داں بجائے گلوبل وارمنگ کا تدارک کرنے کے ایسے اقدامات کرکے ایسے ہتھیار بنا رہے ہیں جس سے کرہ ارض تباہی کی طرف جارہا ہے۔ یوں اس سائنس کی ترقی نے فلاح و بہبود کے کام آسان بنانے کے بجائے انسانیت کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے اس کے بعد قربانی کے بغیر عبادت۔ یعنی ترک عادات ہی عین عبادت ہے۔ ہمارے مولوی حضرات ہی عبادت کی صحیح ترویج کرنے کے بجائے عبادت کو اپنی مخصوص عادات کی بنیاد پر اس کے مقاصد کو بے اثر بنانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں آج کل کے مولوی حضرات کی اعمال میں اور ان کی بیان کردہ تعلیمات بے پناہ تضاد پایا جاتا ہے۔ یہ مولوی حضرت ان ہمارے جلیل القدر نبیوں کی تعلیمات کی جس قدر نفی کررہے وہ ایک طرح سے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں یہ حضرت عیسیٰ کی پیروی کرنے والے ہوں یا محسن انسانیت کے ماننے والے ان کے اعمال ان کی تعلیمات سے بالکل مختلف جب یہ پاکستانی حضرت قائد اعظم اور علامہ اقبال کو اپنا رہنما قرار دیتے ہیں تو ان کو بھی ان کی تعلیمات کا عشر عشیر تک دکھائی نہیں دیتا ہے۔
ہمارے قائد اعظم کی خصوصیت یہ بھی وہ ایک عملی انسان تھے۔ ہم قائد اعظم کو اپنا رہنما قرار دیتے ہیں مگر ہم ان کے انداز زندگی سے مختلف طریقے سے زندگی گزارتے، وہ کبھی کسی سے بدتمیزی نہیں کرتے تھے، ٹیکس نہیں بچاتے تھے، یہ دونوں کام کرنے میں ہم سے بہت آگے ہیں، آمدنی چھپائی، اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا، کسی کا حق نہیں مارا، وقت کی پابندی کی، کبھی قانون نہیں توڑا، اقربا پروری نہیں کی، رشوت نہیں لی اور نہ دی۔ اپنے مذہب کی نمائش نہیں کی، وعدے کی پابندی کی، معاہدے نہیں توڑے، کبھی پروٹوکول نہیں لیا، سرکاری رقم کا غلط استعمال نہ کیا، وہ حضور اکرم کی تعلیمات پر بھرپور عمل پیرا رہے۔
ہم حضور سے محبت کا دعویٰ کرنے والے قائد اعظم کی پیروی کرنے والے، سب کام اس کے برعکس کرکے ان کے لئے اپنی جان دینے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہم ہی ان کی توہین کے مرتکب ہورہے ہیں اور دوسروں کو الزام دے رہے ہیں۔
627