نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 193

کیا یہ ممکن ہے۔۔۔؟

ختم ہوئے دن اس ڈالی کے جس پر تیرا بسیرا تھا۔۔۔ قارئین دل پر جبر کرتے ہوئے آج کا یہ کالم لکھنے کی کوشش کررہا ہوں جس کا ڈر تھا وہی ہونے جارہا ہے۔ جوڑی کو اپنے اور غیروں کی نظریں کھا گئیں، جن پہ تکیہ تھا وہی پتے اب ہوا دینے جارہے ہیں۔ ہوا بھی ایسی کہ آندھی جو سب کچھ خاک و خاشاک کی طرح سے اڑا کر لے جائے گی۔ عمران خان تو تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے، لیکن لگتا ہے کہ اب انقلابی تبدیلی کسی اور سمت سے آرہی ہے یعنی ہم تھے جن کے سہارے وہ نہ ہوئے ہمارے والی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔
عمران خان پوری طرح سے بند گلی میں داخل ہو چکے ہیں اور واپسیکا یا پھر اب کے بار یوٹرن کا بھی کوئی آپشن نہیں ہے لیکن اس کے باوجود معجزے یا پھر حادثے کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ خود عمران خان کو ان کے اپنے انٹیلی جنس سے مسلسل یہ خبریں مل رہی ہیں کہ آنے والے روز ان کے لئے بہتر نہیں ہیں بلکہ ان کا ستارہ بُری طرح سے گردش میں ہے۔ غیر ملکی طاقتوں کی نظریں بھی پوری طرح سے پاکستان کی اس بدلتی ہوئی صورتحال پر لگی ہوئی ہیں وہ جو کبھی ایک اور ایک مل کر گیارہ کا کردار ادا کرتے ہوئے ملکی اپوزیشن کے علاوہ ملک دشمنوں کے لئے خطرہ بنے ہوئے تھے وہ اب ایک اور ایک مل کر دو بھی نہیں رہے۔ حالات اتنی تیزی سے تبدیل ہوں گے اس کا اندازہ کینیڈا میں بیٹھے کم از کم مجھے نہیں تھا لیکن پاکستان کی سیاست میں کچھ بھی کبھی بھی ہوسکتا ہے۔ پاکستانی سیاست دنیا کی واحد سیاست اور جمہوریت ہے جو اخلاقیات سے عاری ہے، یہاں کل کے دشمن آج کے دوست اور آج کے دوست کل کے دشمن بن جاتے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال زرداری اور شریف برادران کے تعلقات ہیں، کس طرح سے اقتدار میں آنے کے بعد ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر قوم کی لوٹی ہوئی دولت نکالنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں، دیکھیں کس طرح سے وہ اس وقت گھی شکر ہوئے بیٹھے ہیں، اس طرح کی سیاست اور جمہوریت میں کسی بھی طرح کی انہونی کی توقع کی جا سکتی ہے۔
عمران خان نے جادو ٹونے کے ذریعے اس ترقی یافتہ دور میں حکومتی امور چلانے کی کوشش کی مگر وہ اس میں اب ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ بندہ شناسی کے گُر سے محرومی عمران خان کے اقتدار کو ڈوبنے کا باعث بن رہی ہے ان کے اقتدار کے تابوت میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے پہلی اور آخری کیل ٹھونکی ہے جس کا اندازہ یا علم ابھی عمران خان کو بھی ہو گیا ہوگا کہ سیدھا سادھا نظر آنے والا عثمان بزدار رشوت کے معاملے میں کتنا تیز ہے کہ وہ بدنام زمانہ کرپٹ سیاستدانوں کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ یہ پنجاب کا وہ سیاستدان ہے جس کے علاقے میں بجلی، پانی اور سڑک تک نہیں، یہ منطق اور دلیل پیش کرکے عمران خان نے انہیں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ بنا دیا تھا۔ ان کے اس انقلابی فیصلے پر خود پارٹی کے اندر سے بھی بڑی تنقید کی گئی تھی اور خود عسکری اداروں نے بھی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے تبدیلی کے لئے وزیر اعظم پر بار بار دباﺅ ڈالنے کی کوشش کی مگر عمران خان کی ضد کے آگے کسی کی نہیں چلی اور اب ان کی یہ اپنی ضد ان کی پارٹی کے علاوہ ان کے اقتدار کی بربادی کا باعث بننے جارہی ہے۔
اقتدار ذاتی جاگیر نہیں ہوتی کہ اسے اپنی ضد کی بھینٹ چڑھایا جائے۔ اقتدار قوم اور ملک کی امانت ہوتی ہے اور ضد میں کئے جانے والے فیصلے خیانت اور بددیانتی کے زمرے میں آتے ہیں۔ آج پنجاب بدانتظامی کے لحاظ سے پاکستان کے باقی صوبوں پر سبقت لے گیا ہے۔ دو سال میں پنجاب پولیس کے سات آئی جی تبدیل ہوئے ہیں، یہ کوئی مذاق نہیں ہے، اس ریکارڈ پر تبدیلی کی مثال نہیں ملتی۔ آج پنجاب میں کسی ایماندار پولیس افسر یا ڈی ایم جی گروپ کے کسی افسر کا کام کرنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہو گیا ہے۔ کمشنر اور ڈی سی اور مختار کار کی پوسٹنگ کے کروڑوں روپے خود وزیر اعلیٰ ہاﺅس میں لئے جارہے ہیں، کسی ڈی پی او کی آر پی او کی پوسٹنگ بلا رشوت کے نہیں ہو رہی ہے۔۔۔ جن کی انکوائریاں تک نیب میں چل رہی ہیں اور خود بزدار کے تانے بانے فرح کے ذریعے کونسی پیرنی سے جا کر ملتے ہیں اس کا علم بھی حساس اداروں کی رپورٹوں میں شدومد کے ساتھ لکھا گیا ہے یہ وہ عوامل ہیں جس کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت گرنے جارہی ہے اس کے علاوہ عالمی سیاست کا بھی براہ راست یا بالواسطہ طور پر اس سارے تبدیلی میں کردار ہے۔ اس تبدیلی میں اپوزیشن پارٹیوں کو آن بورڈ لیا گیا ہے ان کی مشاورت اور حمایت کے ساتھ ہی تبدیلی کا یہ عمل جمہوریت کے سائے تلے کیا جارہا ہے۔ کرنے والے جادوگر خود کو بچانے کے لئے جمہوریت کا سہارہ لے رہے ہیں، اپنے سارے من پسند کام جمہوریت کی چھتری تلے کررہے ہیں۔ سب سے پہلے سینٹ کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لا کر انہیں تبدیل کیا جارہا ہے۔ ان کی جگہ پی پی پی کے حلف یافتہ یوسف رضا گیلانی کو سینٹ کا نیا چیئرمین بنایا جارہا ہے اور اس کے بعد پنجاب سے عثمان بزدار کی حکومت کا خاتمہ بھی عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے کردیا جائے گا جہاں پرویز الٰہی کو تمام اپوزیشن پارٹیوں کی مشاورت سے نیا وزیر اعلیٰ پنجاب بنا دیا جائے گا اور آخر میں پھر خود عمران خان پر بھی عدم اعتماد کا فارمولہ ہی استعمال کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ تو جادوگروں کا ہے اب عمران خان کیا سوچ رہے ہیں اس کا علم جادو ٹونے والوں کے اور اوپر والے کے علاوہ کسی اور کو نہیں ہے۔ ممکن ہے عمران خان اسمبلیاں تحلیل کرکے نئے الیکشن کروانے کا اعلان کردیں۔ یہ ان کا اختیار بھی ہے اور ان کے پاس یہ آپشن بھی ہے۔ غالب امکان یہ ہی ہے کہ عمران خان سیاسی شہادت حاصل کرنے کے لئے یہ حربہ استعمال کرے اور اعلان کردے کہ آئی ایس آئی کے چیف کے تقرری میں رکاوٹ ڈالنے کی پاداش میں ان کی حکومت گرائی جارہی ہے۔ ایسا کرنے کہنے اور اس طرح سے خود کو سیاسی شہید بنانے کے امکانات زیادہ ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں