عمران خان ایڈمنسٹریشن کو 2018ءکے انتخابات میں واضح اکثریت نہ مل سکی، جس کی وجہ سے انہوں نے کئی چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملا کر اتحادی حکومت تشکیل دی جو کہ بطور پریشر گروپس حکومت کو بلیک میل کرتی رہیں۔ ان کے نہ ختم ہونے والے مطالبات ہمیشہ عمران خان کے لئے وبال جان بنے رہے۔ خان کو حکومت سنبھالتے ہی شدید معاشی بحران کا سامنا تھا۔ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ شریف اور زرداری فیملی نے اس ملک کو بہت برے طریقے سے مالی نقصان پہنچایا اور اپنی بڑی بڑی جائیدادیں بیرون ملک قائم کرلیں۔ اربوں روپوں کی منی لانڈرنگ کی گئی جس سے ملک خداداد کی معاشی جڑیں کھوکھلا ہوگئیں۔ ملک بہت بری حالت میں تھا، عمران خان نے چیلنج سمجھ کر اس کی عنان سنبھالی۔ خان سمیت اس کی ٹیم میں بہت سارے چہرے نئے تھے، جنہیں حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا مگر ان کی نیت صاف تھی یہ کپتان کی سربراہی میں پاکستان کو خوشحالی کی طرف لے جانا چاہتے تھے۔
خیر اس ٹیم میں بار بار تبدیلیاں کی گئیں کہ کسی طریقے سے ایک مضبوط معاشی نظام کی بنیاد رکھی جائے حالانکہ اس دوران 2020ءکے اوائل میں ہی کورونا وبا پھیل چکی تھی جس سے دنیا بھر کی معیشتیں بیٹھ رہی تھیں، لاک ڈاﺅن سے نظام زندگی منجمد ہو کر رہ گیا تھا۔ پاکستان کی معاشی صورت حال تو پہلے ہی دگرگوں تھی، یہ بہت نازک مرحلہ تھا مگر اللہ تعالیٰ کی کمال مہربانی اور خان حکومت کی بہترین حکمت عملی سے پاکستان کو معاشی میدان میں اس قدر نقصان نہ ہوا کیوں کہ انہوں نے اسمارٹ لاک ڈاﺅن کی پالیسی اپنائی اور اپنی صنعتوں اور معیشت کو نہ روکا جس سے کاروبار حیات بھی چلتا رہا اور پھر حکومت نے احساس پروگرام کے ذریعے لاکھوں لوگوں کو نقد مال امداد بھی دی۔ الغرض خان حکومت نے تین سال آٹھ ماہ میں انگنت فلاحی کام کئے اور بالاخر معیشت سنبھل گئی۔ معاشی اعشارئیے مثبت سمت کو جارہے تھے کہ اچانک اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے امریکہ، فوج اور اداروں کی ملی بھگت سے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروادی۔ اس دوران اپوزیشن اور جنرل باجوہ نے دباﺅ ڈال کر پی ٹی آئی کے بیس سے زائد ارکان کو حکومت کی حمایت سے روک لیا اور یہ لوگ جنہیں عرف عام میں ”لوٹے“ کہا جاتا ہے، اپوزیشن کے ساتھ مل گئے اور اپنی ہی حکومت کے خلاف کھڑے ہو گئے ان کو آصف زرداری سمیت اپوزیشن نے کروڑوں کی رشوت بھی دی۔ اور اس طرح حکومت کو کمزور کردیا۔ اپنی ہی جماعت کے ارکان کے ٹوٹ جانے کے بعد حکومتی اتحاد بھی ایک ایک کرکے خان سے الگ ہو گیا، اس طرح خان کو قومی اسمبلی میں اکثریت سے اقلیت میں تبدیل کردیا گیا۔
لیکن یہاں اہم نقطہ یہ ہے کہ 2022ءکے اوائل میں مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے خان حکومت کافی کمزور ہو چکی تھی، یعنی عام میں اس کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچ رہا تھا مگر اس ساڑھے تین سالہ دور میں خان نے مجموعی طور پر میدان میں بہترین پرفارم کیا اور خود کو نہ صرف پاکستان کا بلکہ عالم اسلام کا لیڈر منوالیا۔ ان سالوں میں پاکستان کا نام بہت بلند ہوا۔ کیوں کہ خان خود مالی بدعنوانی سے کوسوں دور ہے اور مخالفین بھی اس کے گواہ ہیں لہذا ایسے معلوم ہوتا ہے کہ خان کی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے یہ گریٹ گیم کھیلی گئی اور جونہی امپورٹڈ حکومت قائم ہوئی اس کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ اور عمران خان کی حمایت میں دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانی سڑکوں پر نکل آئے۔ اور آج خان کی مقبولیت آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ مجھے مبینہ طور پر لگتا ہے کہ عمران خان کو دوبارہ دوتہائی اکثریت سے کامیاب کروانے کے لئے یہ کھیل کھیلا گیا ہے لیکن شواہد اور قرائین اس کے خلاف جا رہے ہیں کیونکہ موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے کہنے پر اتنی مہنگائی کردی ہے کہ اسے ہر طرف سے شدید بددعاﺅں اور احتجاج کا سامنا ہے۔ اس وقت ان کا گراف بہت نیچے گر چکا ہے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور آشیرباد حاصل ہے اور وہ بڑی دلیری سے ہر جائز و ناجائز کام کررہی ہے اس سارے کھیل میں مسلم لیگ ن اور صرف جنرل باجوہ ہدف تنقید ہیں نہ کہ ساری فوج۔
عمران خان نے گزشتہ دو ماہ میں بے شمار جلسوں میں اپنی مقبولیت کا لوہا منوالیا ہے اور اب اس کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ قومی اسمبلی برخاست کی جائے اور نئے الیکشن کروائے جائیں، آج کل حکومت اور پی ٹی آئی میں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے۔ عقلمندی اسی میں ہے کہ قوم اپنے نمائندوں کو فریش مینڈیٹ دے۔
آئندہ آنے والے دن اور مہینے بڑے اہم ہوں گے۔ عمران خان کو حیلے بہانے سے گرفتار کرنے کا پلان ہے جس کا بہت شدید ردعمل آئے گا۔ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کو سوچ سمجھ کر اس کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ رانا ثنا اللہ کو فری ہینڈ دینا خودکشی کے مترادف ہوگا کیوں کہ وہ فارغ البال آدمی ہے جو مریم صفدر کے اشاروں پر ناچتا ہے۔
205