کینیڈا دنیا بھر میں ایک امن پسند ملک سمجھا جاتا ہے۔ اس کا عموماً کسی اور ملک سے کوئی جھگڑا یا قضیہ نہیں ہوتا۔ ہاں ستم ظریفانہ طور پر چند ایک استثنا کے ساتھ، یہ ہمیشہ امریکہ کے جھگڑوں میں یا برطانیہ کے خارجہ امور کے قضیوں میں ان کا اتحادی بن کر جنگوں کا بوجھ اٹھاتا رہتا ہے۔ برطانیہ کے ساتھ تو اس کا سمبندھ سمجھ میں آتا ہے کہ کینیڈا اب بھی تاجِ برطانیہ کا اطاعت بردار ہے۔ خواہ یہ اطاعت صرف رسمی ہی کیوں نہ ہو۔ ہا ں یہ اطاعت اس حد تک تو ضرور رسمی ہے کہ کینیڈا کے ہر شہری کو برطانیہ کے تاجپوش کی اور اس کے وارثوں کی اطاعت کا حلف اٹھانا ہوتا ہے۔ یہاں کا وفاقی گورنر جنرل اور صوبائی نائب گورنر جنرل ، تاجِ برطانیہ کے نمائندے ہوتے ہیں۔
تاجِ برطانیہ کے وفادار ہونے کے ناطے کینیڈا، ان سب جنگوں میں شریک ہوتا رہا ہے جن میں تاجِ برطانیہ شامل ہو۔ اس میںعالمی جنگیں بھی شامل ہیں اور دیگر علاقائی جنگیں بھی۔ اس کے ساتھ امریکہ کا پڑوسی ملک ہونے کی بنا پر، اور نیٹو کا رکن ہونے کی وجہہ سے کینیڈا ،امریکہ کی بھی تقریباً ہر جنگ میں کوئی نہ کوئی حلیفانہ کردار ادا کرتا رہا ہے۔ کئی بار تو ان قضیوں میں امریکہ کا حلیف ہونے کی وجہہ سے اسے ایسی کاروایﺅں میں بھی شریک ہوناپڑا ہے جو بین الاقوامی طور پر غیر قانونی سمجھی گئی ہیں۔ اور خود کینیڈا کی سپریم کورٹ نے اسے ان معاملات پر لتاڑا بھی ہے۔ اور کینیڈا کو اپنے ان شہریوں کو معاوضے بھی ادا کرنا پڑے ہیں جنہیں بعض بین الاقوامی غیر قانونی کاروایﺅں کی وجہہ سے ذہنی یا جسمانی اذیت پہنچی۔ یہ بدقسمتی سے کینیڈا کے معاملات کا ایک سیاہ رخ ہے ، جس پر اسے انسانی حقوق کے عمل پرستوں کی شکایتیں سہنا پڑتی ہیں۔
دوسری طرف انسانی حقوق کے معاملات میں بعض کمزوریوں کے باوجود ، کینیڈا دنیا بھر میں ان ممالک کی صفِ اول میں گنا جاتا ہے، جوان انسانوں کی مدد اور دست گیری میں پیش پیش ہیں جو ضمیر کی بنیاد پر اپنے ملکوں میں جبر و تشدد سہتے ہیں یا در بدر ہو کر تارکِ وطن ہوجاتے ہیں۔ کینیڈا، ان معاملات میں نہ صرف آگے بڑھ کر مدد کرتا ہے بلکہ اپنی سرحدوں کو ایسےافتادگان کے لیئے کھول کر انہیں خوش آمدید بھی کہتا ہے اور ان کی ہر ممکن مدد کی کوشش کرتا ہے۔
یہی وہ رویہ ہے جس کے نتیجہ میں کینیڈاکو حیران کن طور پر، دنیا کی جابر ترین شہنشاہیت یعنی سعودی عرب کی سخت ترین مخالفت کا دھچکا پہنچا۔ گزشتہ دنوں سعودی عرب نے, جس سے کینیڈا کے تعلقات ہمیشہ دوستانہ دکھائے دیتے تھے، اچانک سعودی عرب سے کینیڈا کے سفیر کو ملک سے نکل جانے کا حکم دیا اور خود اپنے سفیر کو بھی کینیڈا سے واپس بلا لیا، اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب نے کینیڈا پر تجارتی پابندیاں عائد کر دیں ، اور اپنے ہزاروں طالب علموں کو کینیڈا سے واپس بلانے کا حکم دے دیا۔
یہ سب سعودی عرب کے نہایت سخت گیر نوجوان ولی عہد شہزادے محمد بن سلمان کے حکم پر ہوا۔ شہزادہ محمد بن سلمان گزشتہ دنوں امریکی صدر ٹرمپ کی طرح اچنبھا خیز حرکتیں کرتے خبروں کی شہ سرخی بنت رہے ہیں۔وہ ایک طرف تو اپنے ملک کو آزاد خیال بنانے کے دعوے کر رہے ہیں، دوسری جانب خود اپنے شہریوں کے خلاف جابرانہ کاروایئاں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
کینیڈا کے خلاف سعودی عرب کی کاروائی انتہائی تعجب خیز اور اچانک تھی۔ کینیڈا کے سعودی عرب سے تعلقات عام طور پر دوستانہ رہے ہیں جن میں کبھی تلخی کا شائبہ بھی نہیں تھا۔ اس کے باوجود کہ کینیڈا سعودی عرب میں مقید ایک سعودی شہری ، رعیف بدوی کے انسانی حقوق کے مقدمہ میں اس کی اسی طرح سے حمایت کرتا رہا تھا جیسی کے وہ اس قسم کے دیگر معاملات میں کرتا ہے۔
رعیف بدوی کو سنہ 2012ءمیں توہینِ مذہب کے اسی طرح کے الزامات میں گرفتار کیا گیا جیسا کے پاکستان میں روز ہی ہوتا ہے۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے الکٹرونک میڈیا یعنی فیس ب±ک اور ٹوئٹر کے ذریعہ سعودی عرب کی اہم مذہبی شخصیات کی توہین کی, اور ان کے فتووں پر سوال اٹھا کر وہ مذہب کی بھی توہین کرنے کے بھی مجرم ہیں، اس الزام میں انہیں دس سال قید اور ایک ہزار کوڑوں کی سزا بھی سنائی گئی۔ یہ سزا اتنی شدید تھی کہ دنیا بھر کے انسانی حقوق کے اداروں نے اس ضمن میں آواز اٹھائی۔ کینیڈا نے بھی اس میں اپنی آواز ملائی اور سفارتی بنیادوںپر سعودی عرب سے نرمی کی درخواست کی۔ کینیڈا اکثر ایسے معاملا ت میں اپنی سفارتی کوششیں کرتا ہے۔ کیونکہ اکثر جابر حکمراں اچھی عالمی شہرت رکھنے والے ممالک کا سفارتی دباﺅ طوعاً و کرہاً قبول کر کے اپنا رویہ کچھ نرم کر دیتے ہیں۔
سعودی حکمرانوں نے نہ صرف رعیف بدوی پر ظلم کیئے، بلکہ اس کی بیوی انصافحیدر پر بھی سختیا ں شروع کیں۔ اور اس حد تک زچ کیا کہ، انصاف حیدر کے ماں باپ نے اس پرعیف بدوی سے طلاق لینے کے لیئے دباﺅ ڈالا کیوں کہ وہ ان کے نزدیک و مرتد ہو گیا تھا۔ انصاف حیدر کو اپنی بچیوں کے ساتھ ملک سے فرار ہونا پڑا اور کینیڈا نے اسے پناہ فراہم کی۔ وہ گزشتہ پانچ سال سے یہاں مقیم ہے اور کینیڈا کی حمایت سے اپنے خاوند رعیف بدوی کے حق میں کوششیں کر رہی ہے۔
گزشتہ ہفتہ سعودی عرب نے رعیف بدوی کی بہن ثمر بدوی اور دیگر خوتین عمل پرستوں کو گرفتار کیا جو وہاں خواتین کے انسانی حقوق کے بارے میں مطالبات کر رہی تھیں۔ اس پر کینیڈا کی وزارتِ خارجہ نے ان خواتین کے حق میں ایک مختصر بیان جاری کیا جس میں مطالبہ کیا تھا کہ ان خواتین کو رہا کیا جائے اور ان سے نرمی کی جائے۔
اس مطالبہ نے سعودی حکومت اور بالخصوص ولی عہد محمد بن سلمان کو سخت برہم کردیا۔ جس کے بعد تابڑتوڑ انتہائی حیران کن اقدامات کی خبریں آنے لگیں۔ پہلے کینیڈ ا کے سفیر کو نکالا گیا، پھر سعودی عرب کے ہزاروں طالب علموں اور مشیروں کو کینیڈا سے منتقل کرنے کا حکم دیا گیا، اب یہ امریکہ یا برطانیہ بھیجے جایئں گے۔ اس کے فوراً بعد کینیڈا سے سعودی عرب کی پروازوں پر پابندی لگا دی گئی۔ اور بھی اقدامات کا امکان ہے۔
یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ انسانی حقوق کے تمام معاملات کی حمایت کے باوجود کینیڈا نے گزشتہ سالوں میں اپنے عمل پرستوں کے تمام مطالبات کے باوجود سعودی عرب کو اربوں ڈالر کا اسلحہ فراہم کیا ہے۔ بالخصوص وہ بکتر بند گاڑیاں جو سعودی عمل پرستوں اور یمن کے مظلوم شہریوں کے خلاف جابرانہ طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ کینیڈا کی وہی حکومت جو اس وقت انسانی حقوق کی آواز اٹھارہی ہے، سعودی عرب کو اسلحہ کی فروخت کا دفاع بھی کرتی رہی ہے۔
سعودی اقدامات کے بعد ایک بار پھر کینیڈا کی وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ کینیڈا کسی خسارے کے خطرے کے باوجود انسانی حقوق کے حق میں آواز اٹھاتا رہے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کینیڈا اپنے فوجی اور تجارتی مفادات اور انسانی حقوق کے بارے میں اپنی اقدار کے درمیان مشکل توازن کیسے قائم رکھتا ہے۔ ہم تو یہی چاہیں گے کہ انسانی حقوق کا پلڑا بھاری ہو لیکن اس کے لیئے منافقانہ مفادات سے جان چھڑانی ہوتی ہے۔ کاش ایسا ہو سکے!
708