ہاتھ میں پسٹل اٹھائے کوئی شخص گلزار کی شاعری ، طبلے اور موسیقی پہ بات کرے تو کچھ اور سوچے بنا پہلا وار “حیرت” کا ہی ہوتا ہے ، جو کہ اس ڈرامے کے انتظار کی سب سے بڑی وجہ بھی تھی ، ڈرامہ شروع ہوتے ہی تمکنت کا جو سین چلتا ہے تو ایک معصوم پیشہ ور عورت اپنے جسم اور میک اپ کی فکر میں غلطاں ہے لیکن پھر بھی خوش ہے اور مکمل طور پر شوخ ہے۔ پیشہ ور عورت کو اگر سائیڈ پہ رکھیں تو ایک عام گھریلو عورت کی بھی یہی فکریں ہیں ، شوخیاں اور خوشیاں بھی ہیں۔ یہاں میک اپ آرٹسٹ اس پہ بلا وجہ کی تنقید کررہا ہے کیونکہ وہ اس سے اور کچھ کر جو نہیں سکتا۔ عام زندگی میں بھی مرد وعورت کا رشتہ بالکل ایسا ہی ہے۔ وہ بیچاری گلی گلی میں ناچ کے بھی ایک بوائے فرینڈ پہ اکتفا کئے ہوئے ہے مگر بوائے فرینڈ کے اندر کی کہانی یہ ہے کہ وہ کہتا ہے خود ہی میرے گلے پڑی ہوئی ہے۔ یہ ہمارے مردوں کا تکلیف دہ المیہ ہے کہ وہ محبت جیسے رشتے میں عورت کیلئے عموماً ایسے ہی خوبصورت الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
ڈرامہ آگے چلتا ہے بوائے فرینڈ کا اور ہی بھیانک چہرہ سامنے آتا ہے جس کو عورت کبھی جان نہیں پاتی ساتھ رہتے ہوئے بھی۔
فصیح باری کے ڈراموں کی خاص بات وہ تاریک گلیاں ہوتی ہیں جن کی تاریکی میں ناجانے کیا کیا ہوجاتا ہے اور کوئی دیکھنے والا پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ ان گلیوں سے متصل گھروں اور ان میں رہنے والوں کے بھی یہی حالات ہوتے ہیں۔ تاریکی ، گندگی، جو پہلی نظر میں انسانی سوچ کے تاریک شگافوں کی بہترین عکاسی کرتی ہیں جو کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں اور جو کر رہے ہوتے ہیں ان کو خود نہیں پتہ ہوتا کہ کیا کررہے ہیں اور کیسے کیسے کر رہے ہیں یا پھر وہ سب جانتے ہیں جان بوجھ کر انجان بننے کی ایکٹنگ کرتے رہتے ہیں
کتنی معصوم عورت ہے ناچنے گانے پہ جاتے ہوئے بھی لالچی بوائے فرینڈ سے اجازت ضرور لیتی ہے
ایسا لگتا ہے منٹو کے افسانے کو تصویری شکل دے دی گئی ہو۔ کلاسیکیت، شاعری، یادیں اور وہ جو اٹھانوے کے لاہور کی رومانوی سردیوں کا ذکر ہے ایسا لگتا ہے کہ فلم کے اندر بھی ایک فلم چلنے لگتی ہے۔ اور ذہن اس فلم کو چھوڑ کے اٹھانوے کے لاہور کی تاریک سرد شاموں میں کہیں کھو جاتا ہے
فصیح باری ایک بار پھر پوری طرح معاشرے کی معصوم عورت کے ساتھ کھڑے ہیں ہر بار کی طرح۔ جو معصوم ہے پر معاشرے کی نظر میں بری ہے ، مرد کیلئے کمائی اور عیاشی کا ذریعہ ہے جو خود اس سے ڈر رہا ہے کہیں اپنے میٹھے لفظوں اور کہیں کڑوی تنقید سے اس کے وجود کی نفی کررہا ہے پر وہ معصوم اس بے یقینی کے تاریک جنگل میں بھی بے خبر جھوم رہی ہے ناچ رہی ہے گا رہی ہے
تمکنت کی اداکاری عروج پہ رہی باقی سب اداکار بھی اپنی انتہائی عروج پہ نظر آئے۔ ڈرامے کی اینڈنگ بھیانک لگی یہ عورتوں کے نام نہاد رکھوالوں کے اندر چھپی ہوئی عورتوں سے بھی زیادہ ڈری ہوئی عورتیں جن کی حفاظت کیلئے انھیں ہتھیار رکھنا پڑتا ہے اور جہاں کہیں ان کے اندر کی عورتوں کا وجود جاگ اٹھتا ہے یہ ہر چیز بھول جاتے ہیں
ڈرامے کا سب سے خوبصورت پہلو ، گلزار کی شاعری ، فلموں کے حوالے، کلاسیکیت، تاریکی۔ کہیں کہیں لگتا ہے کہ رائیٹر اس لفاظی کے پیچھے چھپے ادھورے وجود دکھانا چاہ رہا ہے جو لفظوں سے خود کو مکمل کرنے کی کوشش میں مزید ٹوٹتے ہیں اور ٹوٹتے چلے جاتے ہیں۔
220