عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 149

گمنامی بمقابلہ نیازی

پاکستان میں جس بہت بڑی تبدیلی یعنی اس اہم ترین پوسٹنگ کے گرد پاکستان کی اندرونی سیاست بالخصوص اور عالمی پالیسیاں بالعموم گھوم رہی تھیں بالاخر وہ کام 29 نومبر کو سر انجام پا ہی گیا۔ یہ کام کس کے حسب منشا ہوا ہے اس پر فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس کا درست ادراک دو سے چار ہفتوں کے بعد ہی ہو سکے گا اور اس کے بعد ہی یہ بھی معلوم ہو سکے گا کہ اس اہم ترین تبدیلی کی خاطر ہی امریکہ کو رجیم چینج جیسا کڑوا اور زہریلا قدم اٹھان اپڑا تھا غرض اس سارے معرکہ میں جانے والے کو بہت ہی ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا یعنی ان کی کوشش کے باوجود انہیں گمنامی نہیں بلکہ بدنامی کا ہی باقی ماندہ زندگی یعنی رہتی سانس تک سامنا کرنا پڑے گا اور میر جعفر اور میر صادق کی صدائیں دنیا کے ہر کونے میں جہاں بھی وہ جائیں گے ان کا تعاقب کرتی رہے گی۔ سبکدوشی کے بعد قائدہ اور قانون کے تحت انہیں ایکس آرمی تنظیم کا ممبر بننا پڑتا ہے مگر ایک ٹوئیٹ کے ذریعے پہلے ہی تمام ایکس آرمی آفیسرز نے ریفرنڈیم کے ذریعے ان کی رائے مانگ لی گئی ہے جس میں 99 فیصد نے انہیں ان کے سیاہ کارناموں کی وجہ سے ممبرشپ دینے سے انکار کردیا ہے اس طرح سے یہ ان کے گمنامی کے مقابلے میں بدنامی کی ایک طرح سے شروعات ہوچکی ہے یہ ایک عجیب اتفاق ہے عمران خان کی پہلی حکومت ہے کہ جس کے خاتمے پر ملکی عوام نے مٹھائیاںبانٹنے کے بجائے احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور یہ پلی بہت بڑی تبدیلی ہے کہ کسی کی ریٹائرمنٹ پر ملکی عوام نے افسوس کرنے کی بجائے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے 29 نومبر کو یوم نجات اور بعض نے یوم دفع کے نام سے یاد رکھنے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ سب کچھ پاکستان میں بہت بڑی تبدیلی بلکہ خاموش انقلاب کے اشارے دے رہی ہے۔ یہ ہی ایک بدلتے ہوئے پاکستان کے مظاہر ہیں جس کے لئے یقیناً عمران خان اور ان کی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔
جنرل سید عاصم منیر نے پاکستان کے 17 ویں آرمی چیف کی حیثیت سے اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا ہے اور اب ملک کے سیاسی قیادت اور 24 کروڑ پاکستانی ان کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ وہ ملک کو اس موجودہ بھنور سے کس طرح سے نکالتے ہیں۔ آیا وہ سابقہ پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے قومہ زدہ اس امپورٹڈ حکومت کو سہارہ دینے کے لئے بیساکھی کا کردار ادا کریں گیں یا پھر مکمل عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے حکومت کو فوری طور پر نئے انتخابات کروانے کے لئے دباﺅ ڈالیں گے کیونکہ صورت حال بہت زیادہ اچھی نہیں ہے۔ امپورٹڈ حکومت انتخابات سے راہ فرار چاہتی ہے وہ عوامی مقبولیت کا سامنا شفاف الیکشن کرنے کی صورت میں تیار نہیں، انہیں اسٹیبلشمنٹ کے کاندھے یعنی ان کی مدد کی ضرورت ہے ان کی مدد کے بغیر وہ کسی بھی حالت میں الیکشن کروانے اور اس میں شرکت کرنے کا رسک نہیں لے سکتے اسی وجہ سے انہیں کامیاب کھیل کے لئے اپنے امپائر کی ضرورت تھی بقول مسلم لیگ ن کے ورکروں اور رہنماﺅں کے۔ اب وہ اپنا امپائر لانے میں کامیاب ہو گئے ہیں اس طرح کا پروپیگنڈہ ان کی جانب سے شروع کردیا گیا ہے اس میں کہاں تک صداقت ہے اس کا اندازہ ایک ماہ کے اندر اندر ہو جائے گا کہ نئے فوجی سربراہ کی پالیسیاں کیا ہیں۔۔۔؟ آیا وہ سابق آرمی چیف قمر باجوہ کی پالیسیوں کو لے کر ہی چلتے ہیں یا پھر اپنی ٹیم لاتے ہیں فی الحال پنجاب اور خیبرپختون خواہ کی اسمبلیوں کے تحلیل کرنے کے عمران خان کے اعلان سے پی ڈی ایم میں ہلچل مچ گئی ہے اور مولانا فضل الرحمن آپے سے باہر ہو کر گھٹیاں زبان استعمال کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ آئندہ چند روز بہت ہی اہم ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں