پان اور چھالیہ سے عام پاکستانی اور خصوصاً اہل کراچی بخوبی واقف ہیں۔ اندازاً بیس پچیس سال قبل خاموشی کے ساتھ ایک نئی چیز ”گٹکا“ بتدریج مقبول ہونے لگی اور آج۔۔۔ اس کے خریدار/صارف تعداد میں اتنے زیادہ ہو گئے ہیں کہ گٹکے کے کاروبار میں بڑے بڑے لوگ ملوث ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی میں مزدور اور محنت کش افراد کی ایک خاصی بڑی تعداد گٹکا استعمال کررہی ہے۔ کچھ علم کی کمی، کچھ جہالت نے ایک پوری کارآمد نسل کو گھُن لگا دیا ہے۔ خواہ ”تھیلی/پڑیا“ پانچ روپے کی ملے یا دس کی، لینے والے اپنے پیروں پر آپ کلہاڑی مار رہے ہیں۔
آج جو ہم اس حساس موضوع پر بات کرنے لگے ہیں اس کا محرک ایک اخباری خبر ہے۔ تین دن پہلے ڈی ایس پی کلفٹن لائسنس برانچ، زکیہ ملک کی زیر نگرانی ایک آگہی سیمینار منعقد ہوا جس میں اس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے طریقے بتلائے گئے۔ اس سیمینار کے مہمان خصوصی ڈاکٹر نور محمد سومرو تھے۔ یہ منہ کے سرطان کے ماہر ہیں۔ اپنے خطاب میں ڈی ایس پی زکیہ ملک نے کہا کہ پان، گٹکا اور چھالیہ کھانے والے اہلکاروں سے محکمہ پولیس کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ عوام پر بھی اچھا اثر نہیں پڑتا۔ ان سب کو کھانے والے خود اپنی جان کے دشمن ہیں۔ ان کی اصلاح اور ہر ممکن راہنمائی کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔ اس موقع پر ڈاکٹر نور محمد سومرو نے کہا کہ پان، گٹکا اور چھالیہ کسی زہر سے کم نہیں۔ یہ کینسر جیسے خطرناک مرض کے ساتھ دیگر بیماریوں کا موجب بھی بنتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس لَت سے چھٹکارہ کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اپنے موضوع کے لحاظ سے شاید یہ اپنی نوعیت کا پہلا سیمینار ہوگا۔ محکمہ پولیس کی ساکھ اور کن کن چیزوں سے متاثر ہوتی ہے ہم ان کا ذکر نہیں کرتے، صرف ڈی ایس پی زکیہ ملک کی بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب انتہائی خطرناک چیزیں ہیں لہذا ہم نے بھی اس سلسلے میں کچھ تحقیقات کیں۔
گٹکے کے اجزاءکے بارے میں کافی کچھ عوام جانتے ہی ہیں لیکن پاکستان کسٹم میں ہمارے ذرائع نے بتایا کہ اس میں سب سے تباہ کن شے ”چھالیہ“ ہے جس کے بغیر کوئی گٹکا ہوتا ہی نہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دس سال پہلے بینکاک، تھائی لینڈ سے اسمگل شدہ درجہ اول کی چھالیہ پکڑی گئی۔ اسے آغا خان لیب میں تجزیے کے لئے بھیجا تو رپورٹ میں سب سے خطرناک بات یہ تھی کہ یہ کوئی انسان کے کھانے کے قابل چیز نہیں اور صحت کے لئے انتہائی مضر ہے۔ اس کے باوجود افسوس کا مقام ہے کہ یہ اب بھی کنٹینروں کے حساب سے تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور بھارت سے قانونی طور پر درآمد ہورہی ہے۔ اس قانونی درآمد شدہ چھالیہ سے کہیں بڑی مقدار میں نہایت گھٹیا چھالیہ بھی ”اسمگل“ ہو کر آتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ چھالیہ کس مد میں درآمد ہو رہی ہے۔ کسٹم ذرائع کے مطابق حکومت پاکستان کے تحت ایک ایسا ادارہ موجود ہے جس کی عوام الناس کو خبر ہی نہیں۔ اس کا نام ”پلانٹ پروٹیکشن“ ہے۔ چھالیہ ”اس“ محکمے کی اجازت/سرٹیفکیشن سے درآمد ہوتی ہے اگر یہ ”فوڈ آئیٹم“ ہے تو پھر تو اس کی درآمد قطعاً غیر قانونی ہے کیوں کہ سندھ ہائی کورٹ نے سیکریٹری لوکل گورنمنٹ، حکومت سندھ کو حکم دیا ہے کہ وہ ”فوڈ سیفٹی اسٹینڈرڈ قوانین“ مجریہ 2011ءکو سختی سے نافذ کریں کہ کیا درآمد شدہکھانے پینے کی اشیاءانسانی خوراک کے معیار پر پورا بھی اترتی ہیں یا نہیں؟ احکامات میں تمام اضلاع کے کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں سے کہا گیا تھا کہ گٹکا/ مین پوری اور ایسی ہی دوسری اشیاءان کے علاقے میں تیار اور فروخت نہ ہونے پائیں۔ ان کے تیار کرنے، بیچنے اور ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ چھالیہ کے بغیر گٹکا ہوتا ہی نہیں لہذا کوئی کچھ ہی کیوں نہ کہتا رہے یہ بہ آسانی ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اتنی بھاری مقدار میں چھالیہ، گٹکا فیکٹریوں کے لئے منگوائی جارہی ہے۔
پاکستان کسٹم کے ذرائع نے مجھے جو بتایا ویسے ہی کچھ عرصے پہلے لاہور ”پنجاب فوڈ اتھارٹی“ نے کر دکھایا۔ اس نے چھالیہ کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کردی۔ اس پابندی کی وجہ چھالیہ سے منہ، گلے، جبڑے کے علاوہ ایک ناقابل علاج بیماری Oral Submucous Fibrosis ہونا بتلائی گئی۔ ایک زمانے میں بڑی بوڑھیاں گوشت کو گلانے کے لئے چھالیہ استعمال کرتی تھیں۔ اب گٹکے کے دیگر اجزاءکے ساتھ چھالیہ مستقل منہ کے اندر رہے تو وہاں کا کیا حال ہوگا؟ اس کے مضر رساں اثرات میں بھوک کا ختم ہو جانا، کم خوابی اور توجہ مرکوز کرنے میں دشواری بھی شامل ہے۔ بات پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ہو رہی ہے۔ چھالیہ کی خرید و فروخت کی پابندی پر لاہور کی پان منڈی کے بیوپاری جواباً عدالت عالیہ میں چلے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر چھالیہ اتنی ہی خطرناک شے ہے تو دیگر صوبوں نے اس کی خرید و فروخت پر پابندی کیوں نہیں لگائی؟ ایک اندازے کے مطابق بھارت اور انڈونیشیا سے 100 ملین ڈالر سے زیادہ مالیت کی چھالیہ باقاعدہ درآمد کی جاتی ہے اور ”بے قاعدہ اور غیر قانونی“ اس کے علاوہ۔ ادھر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا ہے کہ ”چھالیہ منہ کے کینسر کا ایک بڑا سبب ہے“۔
گٹکا وقتی محرک اور سکون آور ہوتا ہے لیکن استعمال کرنے والے اپنی صحت کی صورت میں اس کی بھاری قیمت ادا کرتے ہیں۔ یہ تو تمباکو نوشی سے کہیں زیادہ تباہ کن ہے۔ سگریٹ کا دھواں 20 فیصد پھیپھڑوں میں جاتا ہے۔ جب کہ 80 فیصد باہر نکل جاتا ہے جب کہ گٹکا 100 فیصد انسانی جسم کے اندر رہتا ہے۔ جو منہ اور حلق کو مسلسل متاثر کرتا رہتا ہے۔ کاش عدالتوں سے رجوع کرنے والے تمام تاجران، ایک نظر ان سسکتے ہوئے مریضوں کو دیکھ لیں جو ”ان چیزوں“ کی وجہ سے اسپتالوں میں۔۔۔ نہ زندوں میں ہیں نہ مردوں میں۔۔۔