پاکستان اپنی معاشی صورتحال کو سنبھالنے کے لئے دنیا بھر سے جوڑ توڑ میں لگا رہتا ہے اور اپنی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر وہ کسی نہ کسی سے اپنے لئے بھاری رقوم بھی حاصل کر لیتا ہے مگر یہ تمام پیسہ نہ جانے کس کنویں میں جا کر دفن ہو جاتا ہے۔ عوام کی حالت دن بدن دگرگوں ہوتی جارہی ہے۔ مہنگائی کا عفریت غریب عوام کا دم گھونٹ چکا ہے جب کہ دوسری جانب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کبھی سعودی عرب تو کبھی امریکہ، چائنا سے مالی امداد حاصل کرنے کے معاہدے کررہی ہے۔
حال ہی میں ہمارے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا وزیر اعظم سے قبل دورہ سعودی عرب اور کئی ایک معاہدوں پر دستخط، پھر امریکہ کو افغانستان میں دوبارہ ہوائی اڈے دینے کی خبروں نے تشویش میں مبتلا کردیا ہے کہ 9/11 کے بعد افغانستان کی جنگ کے نتیجہ میں پاکستان کو ملنے والے افغان مہاجرین آج بھی پاکستان کے لئے ایک مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ عوام کو افغان جنگ کے بعد صرف دہشت گردی ملی جب کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو امریکی حکومت کی جانب سے اربوں ڈالرز جنگ لڑنے کے لئے دیئے گئے مگر ہماری اسٹیبلشمنٹ کی حالت زار نہ بدل سکی نہ ہی نیت بھری۔ امریکہ جنگ کو ادھورا چھوڑ کر اور اپنے مقاصد حاصل کرکے پاکستان کو بے یارو مددگار چھوڑ گیا جس کا نتیجہ پاکستانی عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔ ابھی گزشتہ پاک افغان جنگ کے زخم بھی نہیں بھرے تھے کہ ایک بار پھر امریکہ کو افغانستان میں خوش آمدید کہنے کے لئے ہم سربسجود ہیں۔ چائنا کے وزیر خارجہ نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ ایران کسی کی ایک کال پر ڈھیر ہونے والا ملک نہیں۔ نہ جانے ہمارے غیرت اور حمیت کہاں چلی گئی ہے۔ ہم ڈالروں کے عوض نہ جانے کب تک غلامی کا طوق اپنے گلہ میں ڈالے رہیں گے اگر اس عمل کے نتیجہ میں عوام کی حالت بہتر ہوتی تو پھر بھی گھاٹے کا سودا نہ تھا مگر یہاں تو ہمارے چند بڑوں کے اکاﺅنٹ بڑے ہو جاتے ہیں اور ملک مزید قرضوں میں غرق ہو جاتا ہے۔
حال ہی میں امریکہ کو فوجی انخلاءکے سلسلہ میں دی گئی مراعات کے عوض بھاری رقوم تو حاصل کر لی جائیں گی مگر اس کے بعد کیا پاکستان دہشت گردوں کے حملوں سے خود کو محفوظ بنا پائے گا۔ کیا ہماری افواج میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ ملک کو عوام کے لئے محفوظ بنا سکے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب آج تو شاید کوئی نہ دے مگر وقت بہت ظالم ہے اور اس کا انجامبھی نہایت بھیانک۔
