ہندوستان کی عظیم الشان سلطنت کے آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر نے جو کہ صرف نام کے ہی بہادر تھے اپنی بد اعمالیوں او رعیّاشیوں کے باعث اس سلطنت کو کھو دیا اور انگریز نے بڑے ہی سکون اور اطمینان سے ان کو ایک طرف کرکے ہندوستان پر قبضہ کرلیا۔لیکن اس سلطنت کی تباہی میں صرف بہادر شاہ ظفر کا ہی ہاتھ نہیں تھا ان سے پہلے ہندوستان پر راج کرنے والے تمام بادشاہوں نے مستقبل کے لئے کوئی لائحہ عمل تیّار نہ کیا اور نہ ہی انسانیت کی فلاح کے حوالے سے کوئی ایسا قابل تحسین کارنامہ انجام دیا کہ جسے تاریخ میں کو ئی جگہ دی جاسکے۔در اصل یہ وہ دور تھا جب مسلمانوں کی علمی قابلیت اور عیسائیوں کی جہالت کا خاتمہ ہوچکا تھا۔مسلمان بادشاہ بارہ دریاں ،تاج محل اور ہزاروں کنیزوں کے رہنے کی گنجائش والا حرم سرا بنانے میں مصروف تھے جس میں دودھ اور عطر سے نہانے کے تالاب تھے اور ہم آج تک ان کارناموں پر واہ واہ کرتے ہیں۔جب کے عیسائی تعلیمی ادارے ،اسپتال ،اور تحقیقاتی ادارے بنانے کی طرف توجّہ دے رہے تھے۔وسائل سے ما لا مال اتنی بڑی ہندوستان کی سلطنت کو حاصل کرلینے کے بعد بھی ان مسلمان بادشاہوں نے کوئی فائدہ نہ ا ٹھایا اگر ان مسلمان بادشاہوں کے دماغ کچھ فیصد بھی جارج،فلپ اور ایڈورڈ کی سیریز( اوّل،دوئم،سوئم ) جیسے ہوتے تو یقین کریں آج مسلمان دنیا کی سب سے زیادہ ترقّی یافتہ قوم ہوتے۔البتّہ یہ ضرور ہے کہ جس وقت ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت تھی شیر اور بکری ایک گھاٹ میں پانی پیتے تھے وہاں کے قدیم باشندوں کو غلام نہیں بنایا گیا اور نہ ہی ان کو زبردستی مسلمان کیا گیا۔ان سے کوئی امتیازی سلوک بھی نہیں روا رکھّا گیا اور یہ لوگ جوق در جوق حلقہئ اسلام میں داخل ہورہے تھے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہندوستان میں اولیائ کرام کی آ مد ان کی تعلیم اور حسن سلوک تھا وہاں کے باشندوں کو مسلمان کرنے میں بادشاہوں کا کوئی کردار نہیں ہے لیکن امن اور محبّت کی وجہ انصاف فراہم کرنا تھا جس کی وجہ سے تمام مذاہب کے لوگوں کو ان مسلمان حکمرانوں پر اعتماد تھا ۔انگریز کا ہندوستان میں داخل ہونا اور قبضہ کرلینا مسلمان بادشاہوں کے سپوتوں اور خاص کر بہادر شاہ ظفر کی غلطیوں کا نتیجہ تھا۔انگریز ہندوستان پر ایک صدی تک قابض رہا اکثریت مسلمانوں اور ہندوو¿ں کی رہی لیکن انگریز نے وہاں تعلیمی ادارے ،اسپتال ،میوزیم،سڑکیں اور پل بنوائے جن سے ہندوستان اور پاکستان کے عوام آج تک فائدہ اٹھارہے ہیں۔پھر انگریز کو ہندوستان سے نکالنے کی تحریک شروع ہوئی جسے تحریک آزادی کا نام دیا اور اس میں مسلم،ہندو ،سکھ ،عیسائی سب ہی شامل تھے اور اس تحریک اور اس کے بعد کے حالات سے پاکستان وجود میں آیا ،جس حصّے میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی وہ ہندوستان سے علیحدہ ہوگیا۔آج کے حالات سے یہ اندازہ ہورہا ہے کہ اس حصّے کو علیحدہ کرنے والوں نے چاہے وہ انگریز ہی ہوں ہندوستان پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ پاکستان بن گیا یا ابھی تک بن رہا ہے ہم نے مان لیا کہ ہمیں آزادی مل گئی۔لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ ہمیں آزادی کس سے ملی اور ہم نے کہاں پر اپنا ملک بنایا تاریخ تو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہندوستان ایک اسلامی مملکت تھی جہاں ہندو ،مسلم ،سکھ ،عیسائی،سب پیارو محبّت سے رہتے تھے انگریز نے آکر اسلامی ریاست کو معطّل کیا وہ یہ بھی دعوی’ نہیں کرتا تھا کہ اس نے چالاکی سے ہندوستان پر قبضہ کیا ہوا ہے جدو جہد آزادی دراصل انگریز کو ہندوستان سے نکالنا تھا۔جب انگریز کے جانے کا وقت ہوا تو اسلامی مملکت کو بحال ہونا تھا ہندوستان واپس اسی کو ملنا تھا جس کو بے دخل کیا گیا تھا حقیقت تو یہ ہے کہ انگریز کے بعد مسلمانوں کے ملک پر ہندوو¿ں کا قبضہ ہوگیا اور ایک معاہدے کے تحت ہمیں ایک چھوٹا سا ٹکڑا مل گیا اور اس پر حکومت کرنے والے اسی میں خوش ہیں۔ہندو اگرچہ مسلمان حکومت میں ہمیشہ خوش رہے لیکن انگریز کے ہندوستان سے جانے کے وقت انہوں نے بھی سوچنا شروع کردیا کہ حکومت ہمارے پاس آجائے اور یہی ہوا کہ مسلمانوں کو ہندوستان کھونا پڑا یہ اپنی غلطیوں اپنے اعمال کا نتیجہ تھا۔محلاتی سازشیں،حکومت کا لالچ، اپنے ہی لوگوں کا قتل خونی رشتوں تک کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔میر جعفر میر صادق جیسے لوگوں کی غدّاریاں ،انگریزوں کی چاپلوسی اور مسلمانوں سے غدّاری کرکے بڑی بڑی جاگیریں حاصل کرنا ،مسلمانوں کی حکومت ڈبونے میں کسی غیر کا نہیں اپنے ہی لوگوں کا ہاتھ ہے۔حالات کا تقاضہ یہی تھا کہ اس ایک ٹکڑے کو لے کر علیحدہ ہوجاو¿ اور اس ایک ٹکڑے کو جو کہ پہلے ہی آدھا ہوچکا ہے ڈبونے کی ہر ممکن کوشش اپنے ہی لوگ کررہے ہیں، 72 سال پہلے تحریک پاکستان کے رہنماو¿ں کے پاس صرف یہی ایک راستہ تھا کہ اس حصّے کو قبول کرلیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ہندوستان میں جو بھی فاتح دوسرے ملکوں سے آئے ان کی نسلوں اور ہندوستان میں رہنے والے جدّی پشتی باشندوں کو جو مسلمان ہوگئے تھے ان کی نسلوں کو ہندوستان کے ہی ایک چھوٹے سے حصّے میں منتقل ہونا پڑا جسے پاکستان کا نام دیا گیا۔یہاں ایک اور غور طلب بات ہے کہ مسلمانوں نے اپنی حکومت میں پورے ہندوستان کو کنٹرول میں کیا ہوا تھا جہاں ہر مذہب ہر زبان کے بولنے والے امن ،آشتی اور سکون سے رہ رہے تھے اور اسی ہندوستان کے ایک چھوٹے سے حصّے میں جسے پاکستان کہا جاتا ہے جہاں غیر مسلم بھی بہت تھوڑے سے ہیں 72سال میں نظم وضبط امن پیار ومحبّت قائم نہ ہوا ہم آج تک امن کے لئے ترس رہے ہیں ابھی تک یہ حصّہ مستحکم نہ ہوسکا عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ،اس کی بنیادیں مضبوط نہ ہوسکیں انتشار،بے چینی ،قتل و غارت گری بڑھتی ہی چلی جارہی ہے ایک وقت تھا جب پورے ہندوستان پر مسلمانوں نے سکون سے حکومت کی آج ان کی نسلیں اس کے ایک حصّے کو نہیں سنبھال پارہی ہیں ان رہنماو¿ں کو جنہوں نے تحریک پاکستان میں حصّہ لیا مختلف ناموں سے اور غدّار کہہ کر پکارا جارہا ہے۔کیوں کہ آج کل کے سیاسی رہنماو¿ں کو دیکھ کر ہیںر یقین نہیں آتا کہ کوئی سیاسی رہنما اپنے ملک اور عوام کے لئے قربانی دے سکتا ہے ،لہذا ہم نے نئے اور پرانے تمام رہنماو¿ں کو ایک ہی ترازو سے تولنا شروع کردیا ہے۔یہ ملک جن حالات میں بنا اور جن لوگوں کا لہو اس کی بنیادوں میں شامل ہے کیا ہم نے اس کا قرض ادا کیا ؟ ،،،نہیں بالکل بھی نہیں۔۔۔اگر 72سال تک ایک دوسرے کو محبّت بانٹتے علاقے یا زبان کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی تفریق نہ کی جاتی تو آج یہ خطّہ امن کا گہوارہ کہلاتا ۔لیکن 72سال نفرتوں کا سودا ہوتا رہا اسی نفرت کی بناءپر ہمیں ایک اور حصّہ کھونا پڑا اور آج اس کا نتیجہ سامنے ہے۔چاروں طرف نفرتوں کے بڑے بڑے جھاڑ اگے ہوئے ہیں جن میں صرف کانٹے ہی کانٹے بھرے ہوئے ہیں۔نہ جانے ہمارے ملک میں خود غرضی کا یہ عفریت کب دم توڑے گا خدا کی ذات سے مایوس تو نہیں ہیں لیکن جب تک ہم اپنا محاسبہ خود نہ کریں اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش نہ کریں کچھ بھی نہیں بدلے گا۔
