کسی سے بات کیجئے! 250

گھسی پٹی محبت!!

معاشرے کی نچلی سوچ کے منہ پہ بڑا ہی کوئی ظریف تھپڑ ہے یہ ڈرامہ کہ اس میں اتنے مشکل اور جان کن مسائل کو اتنے ہلکے پھلکے انداز میں دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اکثر تو ایسے ایسے مسائل پہ ہنسی چھوٹ جاتی ہے جہاں عام طور پہ حقیقت میں ہر کوئی اپنا یا کسی دوسرے کا سر پیٹ رہا ہوتا ہے۔ مگر فصیح باری جنھوں نے قدوسی صاحب کی بیوہ لکھا جو کہ اپنی نوعیت کا ایک شدید طنز تھا بحیثیت معاشرہ انفرادی اور اجتماعی سوچ پر۔ ڈرامہ رائیٹر اس وقت واقعی کمال ہی کردیتا ہے جب کرداروں کے پلنے والی سوچ چیر پھاڑ کے باہر نکال دی جاتی ہے۔ قدوسی صاحب کی بیوہ میں ہمیں ہر مقام پر ذہن میں پلنے والی سیاہ سوچ کی چیر پھاڑ نظر آئی مگر چونکہ کامیڈی زیادہ رہی سو کبھی کبھی انٹرسٹ ختم بھی ہوا جبکہ گھسی پٹی محبت میں کامیڈی سے زیادہ حقیقت کی تھکن دکھ رہی ہے جہاں پہ گرنے کا مطلب رکنا نہیں آگے چلنا ہے مگر کوئی ایک قدم تک اٹھانے نہیں دیتا اور بیچاری لڑکی جو گھر بسانا چاہتی ہے کسی نہ کسی طرح اس کا گھر بار بار ٹوٹتا جارہا ہے۔اب کی بار تو لگتا ہےپیمبرا ڈرامے پہ بین ہی لگادے گا۔ ایک عورت کی چوتھی شادی وہ بھی بنا کسی وقفے کے ہضم کرنا سب کیلئے اتنا بھی آسان نہ ہو شاید .
ڈرامہ ایک خوبصورت لڑکی کے گرد گھومتا ہے ویسے یہ بھی شکر ہے لڑکی اچھی خاصی خوبصورت دکھائی ہے ورنہ مشرقی معاشرے میں جہاں آجکل کے دور میں لڑکیوں کی ایک شادی کرنا ماں باپ کیلئے فرسان روح بن جاتا ہے وہاں پہ متعدد شادیوں کا سوال محض ایک سوال ہی ہے اور اسلامی معاشرے کی تربیت پہ خاصا بڑا سوالیہ نشان جہاں نبی پاک نے پہلی ہی شادی اپنے سے پندرہ سال بڑی عمر کی خاتون سے کی جس میں شادی کا پیغام سراسر خاتون کی طرف سے تھا آج لڑکی تو کجا ہی یہ کام یہ پیغام کسی کو بھیجنے کی حامل ہوسکتی ہے بیچارے ماں باپ بھی ڈرتے مارے کسی لڑکے کو یہ پیغام بھیج کے دنیا جہان کی شرمندگی مول لینے کے متحمل نہیں ہوپاتے کہ ہر معاملے میں فوقیت صرف لڑکے والوں کو ہی دی جاتی ہے
یوٹیوبر زید علی کی ایک رشتے سے متعلق ویڈیو ہے جس میں وہ رشتہ بیورو والوں کے آفس جاتا ہے اور وہاں جاکے لڑکی کے بارے میں اپنی ہزار ڈیمانڈز بتاتا ہے۔ سارا کچھ سن کے رشتہ والے انکل اس سے پوچھتے ہیں کہ تم لڑکی کو کیا دوگے تو وہ ڈھیر پھول کے کہتا ہے کہ اسے میں جو مل جاو¿ں گا اور اسے کیا چاہئے۔۔۔ اس کے بعد رشتے والے انکل لڑکے کو ایک دو شدید مغلظات سنا کے وہاں سے بھگادیتے ہیں۔ اگر ہر کوئی یہ قدم اٹھانے کے قابل ہوجائے تو اتنی قابل اور پیاری لڑکیاں نکمے لڑکوں کے حوالے نہ کر دی جائیں صرف اس شرط پہ کہ انھیں ایک گھر مل رہا ہے اور کوئی ان کا خرچہ پانی اٹھائے گا حالانکہ اکثر معاملات چلتے بھی الٹے ہیں۔
ڈرامے میں ایک اوسط درجے کی نوکری کرنے والی لڑکی جو گھر میں کماو¿ بیٹے کی حیثیت رکھتی ہے تھوڑی سی تیز دکھائی گئی ہے مگر بالکل کھری۔ اتنے کھرے لوگوں کے ساتھ زمانہ یہی سلوک کرسکتا ہے جو ہر شادی میں اس کے ساتھ ہوا۔ اس نے گھر بسانے کی کوشش کی مگر مقابل ہر بار ایک عورت سازشوں کا جال لے کے کھڑی ہوگئی۔ اب زندگی پہ غور کرتی ہوں تو سمجھ آتی ہے کہ ہمارے سماج میں تقریباً ہر لڑکی ، عورت کسی دوسری عورت کے پھیلائے ہوئے سازشوں کے جال میں پھنسی پڑی ہے۔ اس پہ پہلے بھی لکھا کہ ہمارے زمانہءجاہلیت میں ہر عورت دوسری کسی بھی عورت(یہاں پر دوسری عورت سے مراد مرد کی دوسری شادی ہر گز نہیں)کی سازشوں کا شکار ہوجاتی ہے۔ یہ عورت بعض اوقات تو لڑکیوں کی اپنی ماں ، بہن بھی ہوتی ہیں جو ان کے گھر نہیں بسنے دیتیں۔ مرد تو زیادہ تر لائی لگ ہی ہوتے ہیں جس نے جدھر ہوشیاری سے جس طرف لگا لیا۔ کاٹھ کے الو بن جاتے ہیں اور وہ اس میں بھی خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں اور عورت کو ناقص العقل۔..
ڈرامے کی ساری سچائیاں ، معاشرتی رویوں پہ طنز ہر ہر سین میں عروج پہ رہا مگر ایک سین پہ دل بے تحاشہ خراب ہوا کہ ایک لڑکی/ عورت جب اپنے شوہر سے کہتی ہے کہ اسے زندگی گزارنے کے لئے صرف ایک مرد کا مکمل ساتھ چاہئے اور کچھ بھی نہیں۔ کتنی سچائی تھی ان الفاظ میں۔ ڈرامے کی ہیروئن بہت بولڈ دکھائی گئی لیکن اس کی خواہش انتہائی معصوم ہے صرف ایک مرد کا مکمل ساتھ اور بیچارہ بدنصیب مرد اسے وہ بھی نہیں دے پاتا۔
مرد کا یہ بے حس رویہ اور اپنی بنیادی ذمے داری سے دستبرداری ایک اچھی لڑکی/عورت کا گھر نہ بسنے کی سب سے بڑی بنیادی وجہ ہیں۔ ایک ایسی لڑکی جو نوکری بھی کر رہی ہے اور بغیر کسی ہائی ڈیمانڈ کے بے پرواہ شوہر کو مکمل توجہ بھی دے رہی ہے وہی شوہر جس کے لاکھ اصرار پر شادی ہوتی ہے اسے ہی بیوی کی کوئی فکر نہیں اور بجائے کہ وہ اپنی کوتاہیوں کو ٹھیک کرکے اپنے گھر پہ توجہ دے پاتا اس نے لڑکی کو ہی چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ ہیں وہ خاموش مسائل جن سے ہمارا معاشرہ کبھی آگاہ نہیں ہوتا۔ اکثر تو چار/پانچ بچے بھی ہوجاتے ہیں اور پھر عورتیں یا تو سٹریس /ڈپریشن میں چلی جاتی ہیں یا پھر دوسری ڈھیر بیماریوں میں۔ یہ صورتِ حال اکثر مردوں کو بھی پیش آتی ہے مگر بات ادھر بھی ساری وہی رہتی ہے
مسئلہ یہ ہے کہ مذہب اور قانون نے جو ذمہ داریاں اور حقوق، مذہبی اور قانونی رشتوں پر لاگو کئے ہیں جہاں کہیں بھی ان سے روگردانی ہوگی مسائل کا انبار کھڑا ہوگا۔ اگر کوئی پورے خلوص اور سچی نیت سے زندگی نبھانا چاہتا ہے تو بیچ میں کبھی زمانہ کود پڑتا ہے تو کبھی عزیز ازجاں رشتے۔ ہمیں ان اصولوں کا ادراک کرنا ہوگا کہ ہم ان بنیادی رشتوں میں کس حد تک پورے خلوص ، محبت اور سچائی سے شامل ہوتے ہیں اور جب تک یہ اقدار دونوں طرف سے پریکٹس نہیں کی جائیں گی کبھی رشتے ٹوٹیں گے تو کبھی انسان۔ ایسی زندگیوں میں اگر سب نارمل لگ بھی رہا ہو تو ہوتا نہیں۔
مرداگر چار شادیاں بھی کرلیں تو کوئی نہیں پوچھتا اور لڑکی اگر لڑکے کا کریکٹر خراب ہونے پر بھی طلاق لے لے تو کریکٹر لڑکی کا ہی سٹیک پہ لگ جاتا ہے۔ اور ساتھ میں گھر نہ بسا سکنے کا ٹیگ۔ آخر اس طرح کی منفی سوچ کب بدلے گی۔ جب مذہب اور قانون نے عورت کیلئے شادی کے ایک جیسے ہی ضوابط رکھے ہیں تو معاشرے کی عمومی سوچ کیوں نہیں بدلتی۔ کیوں عورت صرف اور صرف عزت کو ڈھونے کا پیمانہ بن کے جیتی رہے ؟آخر اس کا اپنی زندگی پہ ویسا ہی حق کیوں نہیں جیسا کہ ایک مرد کا ہے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں