اب شاید مرثیہ پڑھنا اور اس پر سر دھنا ہی ہماری فطرت میں رچ بس گیا ہے، ہم کہ جو اپنے ماضی کا مرثیہ پڑھ پڑھ کر اس قدر ماضی پرست ہو گئے ہیں کہ نہ حال پر ہماری نظر ہے اور نہ ہی مستقبل کی فکر، یبروم سلطان بوقہ ہمارا تکیہ کلام یعنی کہ ہمارے اجداد سلطان تھے اب ان سے کون پوچھے کہ تم کیا ہو؟ ماضی کے مزار پر لگے ہوئے وہ پتھر جس پر گزر جانے کا نام درج ہے آج اگر ہم بطور مذہب دیکھیں تو غالباً سب سے بے عمل اور دوسروں پر انحصار کرنے والے اور اگر بطور قوم دیکھیں تو غالباً سب سے بے عمل اور دوسروں پر انحصار کرنے والے اور اگر بطور قوم دیکھیں تو ایک ایسا گروہ جسے اپنی ذات کے سوا کسی سے غرض نہیں ہے۔ آج دنیا سے قدرتی وسائل کی فروانی ان ممالک میں ہے جو اسلامی نہیں بلکہ مسلم ممالک کہلاتے ہیں ان ممالک کی اکثریت اقوام متحدہ میں بھی موجود ہے مگر ان کے وسائل اغیار کے قبضوں میں ہیں ان کے انتظامات دوسری قوموں کے قبضہ اختیار میں ہیں آج یہ ممالک ان وسائل سے وہ فوائد حاصل کر پا رہے ہیں جن وہ ممالک کررہے ہیں جو ان کا انتظام سنبھالنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ تیل سعودی عرب کی ملکیت ہے مگر اسے نکالنے، ان کی قیمت کا تعین اور نکالنے کی مقدار دوسروں کے پاس ہے۔
آج وہ قدرتی وسائل جن کے بغیر ترقی یافتہ ممالک کا اقتصادی پہیہ نہیں چل سکتا اس کے اوپر قابض اغیار ہیں، اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ جب قدرت نے ان ممالک کو یہ نعمتیں بخش دیں تو انہوں نے کفران نعمت کرتے ہوئے انہیں دوسروں کی جھولی میں ڈال دیا جو علم اور تکنیک میں مہارت رکھتی تھیں انہوں نے علوم حاصل کئے انہوں نے قدرت کے پوشیدہ خزانوں کا سراغ لگایا اور پھر انہوں نے ان ممالک کو سیاسی طور پر اس طرح تقسیم کردیا اور نفرتوں کا ایسا بیج بو دیا کہ وہ سب دوسروں کے دست نگر ہو گئے اور اس طرح ان عیاروں نے وسائل پر قبضہ کرکے ان ممالک کو مونگ پھلی کے دانے کے برابر نفع دے کر خود کو اقتصادی طور پر ان کا محکوم بنا لیا۔ آج سعودی تیل وہاں کے معیار پر نہیں ڈالر کے معیار پر اپنی قیمت کا تعین کرتا ہے۔
تو یہ نام نہاد ترم خان ممالک جو مشرقی وسطیٰ کے مالک کہلاتے ہیں اور دولت کی ریل پیل میں خود کو اقوام عالم کی نظروں میں مسخرے بن گئے ہیں، وہیں ان کے سینے میں ایک ایسا چھوٹا سا ملک جسے انہوں نے نام نہاد عالم اسلام کے ٹھیکیدار ملک کے اباﺅ اجداد نے گوروں سے مل کر قائم کیا تھا جو مصر، اردن، عمان، لبنان اور نہ جانے کن کن ممالک میں گھرا ہوا ہے جس کا رقبہ 22 ہزار کلو میٹر اور آبادی 91 لاکھ ہے مگر اس چھوٹے ملک سے سارے مشرق وسطی کیا پورے عالم کے ناک میں نکیل ڈال رکھی ہے، اس کی مسلمانوں کے ملک فرعونوں کی میراث مصر سے 1967ءمیں چھ دن کی جنگ ہوئی جس میں اس ”پدی“ جیسے ملک نے اس کا بینڈ بجا کر رکھ دیا، اس کے میزائل اٹھا کر لے گیا، جن کے چلنے کی باری ہی نہیں آئی، اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی اور کسی ”مسلمان“ ملک نے اس کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں کی، اس ننھے سے ملک اسرائیل کے مقابلے میں ان مسلمان ممالک نے ترقی کی میدان میں مقابلہ کرنا تو بڑی بات ہے اس کی گرد کو بھی پہنچنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے پاس تیل کے کنواں نہیں ہیں مگر اس کے باوجود بینک آف اسرائیل کے پاس 113 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں، اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جہاں انتہائی بڑی بڑی کمپنیاں امریکہ کے سب سے زیادہ ہیں اور امریکی اسٹاک ایکسچینج میں اسرائیلی کمپنیاں تعداد میں صرف امریکہ اور چین سے پیچھے ہیں، باقی ساری دنیا سے آگے اسرائیل ہے۔ اسرائیل پاکستان کے بعد دوسرا ملک ہے جو مذہب کے نام پر قائم ہوا ہے۔ یہ ایک یہودی ریاست ہے، دنیا کا کوئی بھی یہودی اسرائیل میں آکر رہ سکتا ہے (یارو اب مشرقی پاکستان میں پھنسے پاکستانیوں کا دکھڑا مت رونے لگ جانا جنہیں انہیں پاکستان کی طرف دیکھنے بھی نہیں دیا گیا اور کسمپرسی میں رہ گئے) اسرائیل تمام تر جدیدیت کے باوجود آج بھی اسرائیلی یہودی مذہبی عقائد کا حامل ہے۔ یہ اپنے تہوار مناتے میں اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں، جب اسرائیل اور عربوں کی جنگ ہوئی تو اسرائیلیوں نے یہ جنگ عبادت گاہوں میں دعائیں مانگ کر نہیں جیتیں (جیسے ہمارے یہاں سب کچھ چھوڑ کر بس دعاﺅں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں) اسرائیلیوں نے اپنی جنگ طاقت اور حکتم کے بدولت جتیں اور عربوں کو ایسی شکست فاش دی کہ آج تک وہ اپنے زخم چات رہے ہیں اور دوبارہ ایسی ”حماقت“ کی کوشش نہیں کی۔ آج سوال یہ ہے کہ اس وقت خدا نے عربوں کی دعائیں نہیں سنی؟ اگر ایسا تھا تو کیا خدا بھی اسرائیل کے ساتھ ہوتا؟ یہ کائنات خدا کے کچھ آفاقی قوانین کے تحت چل رہی ہے، آج سے اربوں سال قبل یہ کائنات جب وجود میں آئی تھی تو اس کے ساتھ ساتھ یہ قوانین بھی وجود میں آئے تھے، یہ قوانین کائنات کے ذرے ذرے پر یکساں طور پر لاگو ہوتے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کس مذہب اور عقیدے کے حامل ہیں جیسے کشش ثقل کا قانون آپ کائنات جہاں جاہیں چلے جائیں یہ قانون ساتھ ساتھ چلے گا اس طرح ہائیڈروجن اور آکسیجن ایک خاص ترکیب کے ساتھ ہمیشہ پانی میں جائے گا، چاہے یہ ترکیب ایک عیسائی استعمال کرے یا کوئی مولوی، اسی طرح ان قوانین کے تحت بننے والی گولی چلی گی جو ایک مذہبی کے دل میں یا لادین کے دل میں سوراخ کردے گی اس کے اثرات دعاﺅں اور مناجاتوں سے نہیں روکے جا سکتے۔ اس طرح سر درد کی دوا ایک ملحد کے سر درد بھی ویسے ہی دور کرے گے جیسے ایک حاجی کو، آج ساری دنیا علم کے ذریعہ خود کو دنیا میں ترقی کی بلندیوں کی طرف لے جارہی ہے اور وہ اپنی ایجادات اور اختراع کے ذریعہ ساری دنیا کی فلاح و بہبود کے لئے کام کررہے ہیں۔ انہوں نے معیشت کی تھوریاں بنالی اور انسانی نفسایت کی گرہیں کھول دی ہیں، کچھ اخلاقی معیار طے کر لئے گئے اور انسانی ترقی کے راز دریافت کرلئے، طبی قوانین، نسخے، فارمولے اور اصول آفاقی تو نہیں مگر ان پر کسی قوم یا مذہب کی اجارہ داری بھی نہیں ہے۔
اسرائیل نے یہ اصول اپنائے، اپنی طاقت اور دولت میں اضافہ کیا اور مسلمانوں کو پیچھے چھوڑ دیا، اگر اسرائیل یہودی ملک نہ ہوتا تب بھی یہی نتیجہ نکلتا، اس طرح عرب ممالک اگر مسلمان نہ ہوتے تو 1967ءکی جنگ کا نتیجہ مختلف نہ ہوتا، ادھر 1914ءسے لے کر 1941ءتک دنیا دو عظیم جنگ لڑیں، جن میں بارہ کرور مارے گئے مگر وہی ممالک آج یورپین یونین کا حصہ بنے ہوئے شیر و شکر ہو گئے مگر عرب جو ایک ہی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، آج ایک ساتھ بیٹھنے کے لئے تیار نہیں ہیں، آج تک ایک وسرے کے حریف بنے ہوئے ہیں، جب کہ روزانہ ہماری مساجد میں امت مسلمہ کے درمیان اتحاد کی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ سوال ہماری دعائیں مستجاب کیوں نہیں؟ ہم اللہ کا وہ قانون تسلیم نہیں کررہے جو ہمیں قرآن میں دیا گیا ہے اس لئے آج ساری دنیا میں ذلیل و خوار ہیں۔
