پاکستان ہم جنس پرستی کے قانون سازی سے عالم اسلام میں بالخصوص اور باقی ماندہ دنیا میں بالعموم ایک تماشہ بن گیا اور ریاست ہونے کے حوالے سے اس کی عزت دو کوڑی کی ہو کر رہ گئی اور اس قانون سازی سے پاکستان کا اسلامی ملک کہلوانا بھی مذاق کے ساتھ ساتھ ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا اس اسلام دشمن اخلاق اور سماج دشمن بل پر دستخط کرتے ہوئے عالم دین اراکین اسمبلی کے ہاتھ کیوں نہ ٹوٹے اور اس پارلیمنٹ پر اللہ کا قہر کیوں نہیں نازل ہوا جہاں اس طرح کی ایک غیر فطری اور غیر اسلامی قانون سازی کی گئی جہاں ایک مرد کو دوسرے مرد کے ساتھ شادی کرنے کی اجازت دی گئی کس طرح سے پاکستان کو جو اسلام کے نام پر دنیا میں معرض وجود میں لایا گیا تھا وہاں کس طرح کی قانون سازی کرکے ملک کے 25 کروڑ مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اتنے بھیانک اور اخلاق سوز اسلام دشمن قانون سازی کو عجلت اور رات کی تاریکی میں کی گئی اور ملکی میڈیا کو بھی اس سے بے خبر رکھا گیا۔ حیرت کی بات ہے کہ دینی جماعتوں کے علم میں ہونے کے باوجود انہوں نے نہ تو اس طرح کی غیر اسلامی قانون سازی کو کوئی روکنے کی کوشش کی اور نہ ہی اس کے خلاف کوئی احتجاج کیا بلکہ اس پر دستخط کرکے ایک طرح سے خود بھی اس گناہ کبیرا میں شامل ہو گئے، اب ملکی عوام کو ہی اس طرح کی نام نہاد اسلامی جماعتوں کا کھل کر بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ ہم جنس پرستی کی اس قانون سازی کا سہرہ پاکستان مسلم لیگ نون کے سر جاتا ہے، ایسے لگ رہا ہے کہ یہ غیر اسلامی قانون سازی بھی آئی ایم ایف کی شرائط میں شامل تھی اور اس کے بغیر انہیں قرضہ ملنا ممکن نہیں تھا، ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کے لئے مسلم لیگ نون نے اس طرح کی قانون سازی کرکے کڑوا گھونٹ پینے سے بھی گریز نہیں کیا لیکن اس قانون سازی کے کرنے کی جو بھی تاویل یا دلیل پیش کی جائے وہ غلط ہے۔ اس طرح کی قانون سازی کو کوئی بھی مذہب اور کوئی بھی مہذب معاشرہ سپورٹ نہیں کرتا، یہاں تک کے پڑوسی ملک میں بھی اس طرح کے اخلاق سوز قانون کی کوئی گنجائش نہیں ہے، پاکستان میں اس طرح کی قانون سازی ایک منصوبے کے تحت کی گئی ہے، پاکستان کو مسلم امہ میں بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ مستقبل قریب میں ترکی کے ساتھ مل کر پاکستان کو ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے عالم اسلام کی قیادت کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ اسی وجہ سے عالمی طاقتوں نے اپنی کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے اتنی زہریلی اور اسلام دشمن قانون سازی پاکستانی پارلیمنٹ سے کروا کر یہ بھی ثابت کردیا کہ پاکستانی پارلیمنٹ کا ریموٹ کنٹرول ان کے پاس ہے وہ جس طرح کی چاہے قانون سازی ان سے کروا سکتے ہیں اس طرح کی قانون سازی پر سوائے افسوس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے اس پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن اس سے اتنا تو ہوا کہ ملکی عوام کے سامنے ان کے سیاسی مذہبی جماعتوں اور سیاسی مولویوں کی حقیقت تو کھل کر سامنے آگئی کہ وہ بہروپیے ہیں ان کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں وہ صرف اسلام کے نام پر ملکی عوام کو بے وقوف بنا کر ان سے ووٹ وصول کرتے ہیں۔
اب ملکی عوام کی نظریں اپنی اعلیٰ عدلیہ پر لگی ہوئی ہیں جو پاکستان کے آئین کی ضامن ہیں کہ پاکستان میں اسلام کے بنیادی اصولوں کے ٹکرانے والی کوئی بھی قانون سازی نہیں ہو سکتی اس لئے اب سپریم کورٹ کو اس ہم جنس پرستی کے قانون پر ازخود نوٹس لینا چاہئے اور اس قانون کو کالعدم کرکے پاکستان کا نام عالم اسلام میں ایک بار پھر سرخرو کرنا چاہئے، اب صرف اور صرف سپریم کورٹ ہی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرکے ملکی معاشرے کو اس لعنت کی جانب قانون سازی کے ذریعے بڑھنے سے روک سکتی ہے۔ اسی میں پاکستان کی سلامتی پاکستان کی بقاءاور پاکستان کا وقار و شان مضمر ہے۔
173