میرا اعتراض صرف یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ کہا جارہا ہے تحریر کے ذریعے یا کسی بھی ذریعے سے اس میں کتنی صداقت ہے یا صرف ایک مفروضہ کی بنیاد پر کمیونٹی،معاشرے یا مذہب کے بارے میں بے بنیاد باتیں ہوں۔کیونکہ کمیونٹی یا معاشرے میں توازن برقرار رکھنے کے لئے پر امن طریقے سے رہنے کے لئےہمیں کچھ پابندیاں کچھ حدیں مقرّر کرنا ہوتی ہیں یہ پابندیاں یا حدیں کسی قانونی ادارے یا کسی اور کی جانب سے ہم پر زبردستی مسلّط نہیں کی جاتی ہیں بلکہ اسے ہم باہم رضامندی سے قائم کرتے ہیں کچھ لوگ اگر اسے توڑنے کی کوشش کریں اور اس سے اجتماعی نقصان کا اندیشہ ہو تو اس کی روک تھام کے لئے کسی کو تو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔میں کوشش کرتا ہوں کے معاشرے کے ان کرداروں پر سے پردہ ہٹاو¿ں جو کسی نہ کسی طور پر ہمارے معاشرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔یہ کردار ہر طرف نظر آتے ہیں لیکن بعض اوقات ہم کسی مصلحت کی بناءپر ان کی اچھّائیوں یا برائیوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔اور یہی ہماری سب سے بڑی غلطی ہے۔میں لکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ ان کرداروں میں کسی ایک کو بھی اپنا چہرہ نظر آجائے۔تو زبان سے تو نہیں لیکن دل میں ضرور اقرار کرتا ہوگا۔کہ بات تو سچ ہے برائی کی صورت میں ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی’ اسے توفیق دے اور وہ اپنے آپ کو بدل سکے۔بہرحال یہ حدیں یا پابندیاں جو ہم آپس میں قائم کرتے ہیں اسے ایک سسٹم کا نام دیتے ہیں۔اور ایک سسٹم وہ ہوتا ہے جو آئین اور قانون کے مطابق کسی ملک میں قائم کیا جاتا ہے۔کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کا سسٹم خراب ہے کسی بھی جمہوری ملک کے سسٹم میں جو کچھ آئین میں ہوتا ہے جو کچھ قوانین بنائے جاتے ہیں۔اس کی رو سے کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں ہوتی کوئی عام آدمی ہو یا وزیراعظم جرم کی سزا سب کو ملنا چاہئے لیکن بدقسمتی سے ہم سمیت کچھ ممالک میں ایسا نہیں ہورہا ہے اور اسی بناءپر اسے سسٹم میں خرابی کا نام دیا جارہا ہے۔لیکن یہاں ہم اپنے ملک کی بات کرتے ہیں۔جو لوگ قانون بناتے ہیں اس میں اپنے بچاو¿ کے راستے بھی بنالیتے ہیں کہ جب خود گرفت میں آنے لگیں تو راستہ استعمال کرلیں۔اور کامیاب بھی ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس تعلّقات ہیں سرکاری افسران سے بڑے بڑے عہدے داران سے اور سب سے بڑھ کرمال و دولت سے یہ تو اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کی جیب کتنی بھاری ہے ۔جگیردار ،زمیندار ،سرمایہ دار جنہوں نے نوکروں کی لمبی لمبی فوجیں پالی ہوتی ہیں ۔کس لئے ؟ اس لئے کہ جب کسی غیر قانونی یا قتل وغیرہ کے چکّر میں پھنسنے لگیں تو نوکر کو آگے کردیں کہ ایک تو تم نے نمک حلالی کرنی ہے دوسرے یہ کہ ساری زندگی محنت کرکے بھی اپنے خاندان کو اچھّی زندگی نہیں دے سکتے لہذا جیل جاو¿ تمھارے خاندان کی دیکھ بھال ہم کریں گے اور جب معاملہ ٹھنڈا ہوجائے گا سارے ثبوت مٹادئے جائیں گے تو جیل سے رہائی بھی مل جائے گی۔کوئی گواہ بھی ہوگا تو اس عرصے میں ٹھکانے لگادیا جائے گا۔نوکر بھی سوچتا ہے کچھ عرصے کی بات ہے مال بھی ملے گا لہذا بے چارہ راضی ہوجاتا ہے ،تو سسٹم میں خرابی کا ذمّہ دار کون ہے۔مانا کہ ہمارے ملک کا سسٹم خراب ہے ،ذمّہ دار حکومت ہو یا کوئی بھی ہو لیکن جب آپ کسی مغربی ملک میں جاتے ہیں تو وہاں کے سسٹم کو آپ بہت پسند کرتے ہیں گاہے بگاہے اس کی مثالیں بھی دیتے ہیں۔ فرق بھی بیان کرتے ہیں۔لیکن زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کی حرکتیں وہی ہیں جو اپنے ملک میں تھیں یہاں کے سسٹم کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑا یعنی ذہنیت وہی ہے۔ چوری، جھوٹ، بے ایمانی، دغابازی اور منافقت کرکے عزّت و شرافت کا ایوارڈ لینے کے لئے اسٹیج پر کھڑے نظر آتے ہیں۔بزنس مین ہوں،ملازم پیشہ ،یا کسی بھی شعبے سے تعلّق رکھتے ہوں اسی سسٹم کے ساتھ چلتے ہیں جسے برا سمجھتے تھے اور پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔سامنے کچھ ہیں اور پیٹھ پیچھے کچھ ،یہ دہرا معیار کیوں ہے ؟ یہ منافقت کیوں ؟ سسٹم کہیں کا بھی ہو بات ذہنیت کی ہے ہم یہاں کے لوگوں کے ساتھ ان کے سسٹم کے مطابق چلنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی کمیونٹی کے ساتھ اس سسٹم میں چلتے ہیں جسے ہم اپنے ملک میں خراب کہتے تھے۔اب یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کتنے فیصد لوگ اس سسٹم کو خراب کہتے تھے یا کہتے ہیں۔کیونکہ جو کچھ بھی ہمارے ملک میں ہورہا ہے۔اسے خرابی کا نام نہیں دیا جارہا ہے بلکہ ،چوری ،بے ایمانی، بد اخلاقی ،بد اعمالی ان سب چیزوں کو ہی سسٹم کا حصّہ کہا جارہا ہے اور یہ تمام حرکتیں بڑے فخر سے ہورہی ہیں۔ہم دنیا میں کہیں بھی اپنی کمیونٹی میں اپنے سسٹم کے حساب سے چلنا چاہتے ہیں تو اپنے ملک میں سسٹم کی خرابی کا ذمّہ دار کون ہے۔ہمارے ملک میں دراصل تمام برائیوں اور سسٹم کو خراب کرنے میں عوام کا بھی اتنا ہی کردار ہے جتنا حکمرانوں کا اس کی مثال سامنے موجود ہے ،نواز شریف تین مرتبہ برسر اقتدار آتے ہیں جو کچھ کرتے رہے سب کچھ عوام کے سامنے ہے ،زرداری نے کیا کچھ نہیں کیا کون ہے جو اس سے واقف نہیں ہے۔ ایم کیو ایم نے کیا کچھ نہیں کیا پہلے تو اس سے سراسر انکار کیا جاتا رہا کہ یہ سازش کے تحت الزامات لگائے جارہے ہیں اور پھوٹ پڑ جانے کے بعد بانی سمیت تمام بڑے رہنما خود ہی ایک دوسرے کی پول کھول کر بتارہے ہیں کہ کیا کیا ہوا۔سب کچھ معلوم ہوجانے کے باوجود نواز شریف۔زرداری، اور ایم کیو ایم کے چاہنے والے ابھی تک ان بدعنوان لوگوں کی محبّت میں گیت الاپ رہے ہیں وہ ان لوگوں کے علاوہ کسی کی بھی حکومت نہیں چاہتے ،ہے نا حیران کن بات ؟کیا یہ سمجھا جائے کہ ان لوگوں کو کچھ بھی علم نہیں ہے ،یہ انتہا درجے کے بے وقوف ہیں یا پھر سب کچھ جانتے ہوئے بھی ایسے لوگوں کو کیوں سپورٹ کرتے ہیں کیوں ان کو حکومت میں لانے کی جدوجہد کرتے ہیں ۔ان لوگوں کے کرپشن پر یقین کیوں نہیں کرتے۔ لیکن یہ صرف ہماری سوچ ہے کہ ایسے بد عنوان سیاست دانوں کو سپورٹ کرنے والے جاہل ہیں ان پڑھ ہیں بے وقوف ہیں۔نہیں جناب ! یہ بے وقوف یہ ان پڑھ نہیں یہ بہت ہوشیار لوگ ہیں ایک عام آدمی کی سوچ سے بہت دور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن میں کرپشن کے جراثیم بھرے ہوتے ہیں یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہر محکمے میں جاکر اپنے غیر قانونی کاموں کے لئے رشوت دیتے ہیں اور رشوت لیتے ہیں۔یہ وہی لوگ ہیں جو معاشرے میں بدعنوانیاں پھیلانے کے ذمّہ دار ہوتے ہیں اور ان کو پو چھنے والا ان کو موو¿رد الزام ٹھہرانے والا کوئی نہیں ہوتا یہ ایمان دار افسروں کو رشوت خور بننے پر مجبور کرتے ہیں اور یہ صرف ایسے لیڈروں کے لئے کام کرتے ہیں پیسہ خرچ کرتے ہیں جلسے جلوس اور احتجاج کرتے ہیں جو کرپٹ ترین ہو۔ کیوں کہ ان کو اسی میں اپنی بقاءنظر آتی ہے۔ایک فیکٹری کا مالک ہے کروڑوں روپیہ کمارہا ہے لیکن فیکٹری کی بجلی میں چوری کررہا ہے۔بجلی والوں کو پیسہ کھلارہا ہے جب فیکٹری کا مالک یہ حرکت کرتا ہے تو فیکٹری کے تمام ملازمین جو کہ مزدور نہیں بلکہ اچھّے عہدوں پر ہیں سب اپنے گھروں میں چوری کی بجلی استعمال کرنے لگتے ہیں ۔ لاکھوں افراد جو ایسے محکموں میں کام کرتے ہیں جہاں رشوت کے بغیر جائز کام بھی ممکن نہیں ہے سبزی والے اسٹور والے مرچ مسالے والے زندگی کے ہر شعبے سے تعلّق رکھنے والوں میں تھوڑے بہت کرپشن کے جراثیم موجود ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب چور ہیں۔حقیقت میں یہ بے وقوف نہیں بلکہ یہ ملک و معاشرے کے دشمن اور صرف اپنی ذات کی حد تک سوچنے والے ہیں ورنہ اور کیا بات ہے کی جن لوگوں کی حقیقت بچّہ بچّہ جانتا ہے یہ لوگ ان ہی کو کرسیاں دلاتے ہیں۔موجودہ حکومت کی ایک ایک چھوٹی سی چھوٹی بات پر اعتراض ہورہا ہے۔ایک ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے کہ صدر پاکستان کی آمد پر سڑک کیوں بند ہے۔باہر سے کرپشن کا پیسہ کیوں نہیں لایا جارہا ،نوازشریف اور زرداری اپنے دور میں کتنی مرتبہ ہیلی کاپٹر پر بیٹھے کتنی مرتبہ حکومت کے خرچے پر عمرہ کے علاوہ بغیر کسی وجہ کہ غیر ممالک کے دورے پر گئے بے شمار باتیں ہیں جن پر آج تک کوئی اعتراض نہیں ہوا سب کو سب کچھ یاد ہے لیکن یہ صرف حکومت کو ناکام کرنے کے لئے ہورہا ہے ۔حکومت وقت کو تھوڑا سا بھی وقت دینے کو تیّار نہیں ہیں۔الزامات کی بوچھاڑ ہے اور یہ سب صرف اس لئے ہورہا ہے کہ یہ لوگ پریشان ہیں ان کے روٹی پانی کا مسئلہ ہے۔ایک معمولی سا بھی آدمی جو سبزی بیچنے میں ڈنڈی مارتا ہے وہ بھی اپنا حرام دانہ پانی ختم ہونے سے خوفزدہ ہے لہذا ان اعتراضات میں وہ بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لے رہا ہے۔
716