تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 386

ہم طائف والے

یہ سمجھ لو کہ محبوبِ خدا ہیں مصطفیٰ
محبوب خدا کو طائف کے لوگوں نے جب لہولہان کردیا اور آپ کے سر سے خون بہہ کر جوتوں تک میں آکر جم گیا۔ اللہ اپنے محبوب کی اس حالت کو دیکھ کر غیض و غضب میں آگئے۔ فوراً فرشتوں کو ان کے پاس بھیجا، فرشتوں نے اللہ کے محبوب سے پوچھا کہ آقا ہمیں حکم دیجئے کہ اہل طائف کو ان دو پہاڑوں کے درمیان مسل کر رکھ دیں۔ رحمت اللعالمین نے جواب دیا ”نہیں نہیں تم اہل طائف کے ساتھ یہ سلوک نہ کرو، ممکن ہے ان کی آنے والی نسلوں میں سے یہ لوگ مسلمان ہو جائیں“۔
پاکستان کے موجودہ حالات دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم پاکستان کے عوام کی اکثریت کا تعلق بھی طائف کے ان افراد کی نسل سے ہے جس کی پیشن گوئی اللہ کے محبوب نے زخم کھا کر کی تھی۔ طاقت کی نسل کا تعلق پاکستان کے کن طبقات سے معلوم ہو گا کہ زندگی کے ہر شعبہ میں اس نسل کے پیروکار موجود ہیں، یہ اپنے اپنے اعمال سے پہچانے جا سکتے ہیں۔ ہمیں یہ جائزہ لینا چاہئے کہ اس نسل کا پاکستان کی کن سیاسی مذہبی جماعتوں کے علاوہ کون سے ادارے اور محکموں میں یہ پائی جاتی ہے۔
یہ بات تو طے شدہ ہے کہ پتھر مارنے والی نسل کو پاکستان میں با آسانی پہچانا جا سکتا ہے اور ان پر گولیاں چلانے والے بھی ان میں شمار کئے جا سکتے ہیں وہ ادارے بھی اس میں شامل ہیں جنہوں نے اپنے مقاصد کی خاطر ان کو پروان چڑھایا۔ وہ افراد بھی ان میں شامل ہیں جنہوں نے ان کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا اور ان کے ذریعہ اپنی سیاست چمکائی۔ یہ طائف زادے معاشرے میں ہر شعبہ میں موجود ہیں۔ کوئی بھی ایک دوسرے کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہا۔ اپنے گریباوں میں جھانک کر ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم عاشق رسول ہیں یا طائف زادے۔ زندگی کے جس بھی شعبہ سے ہمارا تعلق ہے اس میں یہ یقین کرنا ہے کہ ہمارے اعمال ہمارے طریقہ کس سے مطابقت رکھتے ہیں۔ زبانی کلامی یا نعروں سے اس بات کا تعین نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ہم عاشق رسول ہیں یا طائف والوں کے پیروکار۔ ہم میں سے سب ایک دوسرے کو طائف والوں کے پیروکار قرار دے رہے ہیں اور خود کو نعرے لگا لگا کر عاشق رسول ثابت کررہے ہیں لیکن معلوم یہ ہو رہا ہے کہ ہمارے طرز عمل تو طائف والوں جیسے ہیں اور نعرے عاشق رسول کے۔ ہر کوئی اپنے آپ کو عاشق رسول گردان رہا ہے مگر ان کے عمل برعکس۔
معاشرے کے اعلیٰ سے اعلیٰ طبقے سے لے کر سب سے نچلے لوگوں میں خصوصیات تو طائف والوں جیسی ہیں وہ اپنے مخالف کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ سمجھ یہ رہے ہیں کہ وہ عاشق رسول سے سرشار ہیں۔ ہم طائف والے اپنے آپ کو عاشق رسول سمجھ کر اپنی بد اعمالیوں کے پتھروں سے نبی کی تعلیمات کو زخمی کرکے اسے اسی طرح لہولہان کررہے ہیں جیسے طائف والے ہمارے نبی کو سر سے پیر تک لہولہان کرکے نعرے لگا کر خود کو کامیاب سمجھ رہے تھے۔ وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ اللہ کا عذاب ان کے کس قدر قریب ہے لیکن وہ مسلسل پتھر برساتے رہے اور ہمارے نبی ان کے لئے دعاﺅں کے پھول نچھاور کرتے رہے۔ آج ہم اپنے ملک میں ان کا نام لے کر دنیا والوں کو کس قسم کے پیغامات پہنچا رہے ہیں۔
ہمارے اس طرز عمل سے دنیا بھر میں ہمارے پیارے آقا محمد کا کس قسم کا تاثر جا رہا ہو گا اس کا ہمیں بالکل اندازہ نہیں۔ ہمارے ملک میں اس جنگ و جدل کے بادل دنیا بھر کو کس قسم کا تاثر دے رہے ہیں۔ ہم اس سے بالکل بے خبر اپنے اپنے محاذوں پر ڈٹے ہوئے دوسروں پر گولہ باری کررہے ہیں اور عشق رسول کے پر شگاف نعرے بلند کررہے ہیں۔ ہمارے پیارے نبی نے جس طرح اللہ کا پیغام ہم دنیا والوں تک پہنچایا اس کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی۔ ہمارے آقا نے اللہ کے ایک ایک پیغام کو اپنی ذات کے ذریعہ اس طرح ہم تک پہنچایا کہ حضور کی ذات کے ہر پہلو سے اللہ کا پیگام عیاں ہو کر پوری تفصیل سے ہمارے دل و دماغ تک پہنچتا رہا ہے اس طرح دنیا کو اپنی ذات سے تہذیب تمدن کی ایسی تعلیم دی کہ دنیا کا بڑا سے بڑا مدبر استاد بھی ایسا نہ کر سکا۔ بھٹکے ہوئے انسان اس تہذیب سے متاثر ہو کر اعلیٰ صفات کی ہستیوں میں شمار ہونے لگے۔ اس کے برخلاف ہم مسلمان ہو کر اس تہیب و اخلاق سے دن بہ دن دور ہوتے چلے گئے، ہمارے اندر طائف والوں کی خصوصیات وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جارہی ہیں جو اپنے مخالفین پر پتھراﺅں کرکے زخموں سے چور چور کرتے رہے ہیں اور بجائے نبی کی سنت پر عمل پیرا ہو وہ طائف والوں کے طریقے اختیار کررہے ہیں۔
اہل طائف اس لحاظ سے ہم سے بہتر تھے کہ ان تک ہمارے نبی کی تعلیمات جو اللہ کے پیغام پر مبنی تھیں نہیں پہنچ پائی تھیں۔ اور جب ان تک وہ تعلیمات پہنچیں تو انہوں نے ان کو من و عن اپنا لیا اس کے برخلاف ہم تک نبی کی تعلیمات اور علوک قرآنی کی صدائیں ہر محلہ کی مسجدوں کے ذریعہ گونج رہی ہیں اور ہم ان تعلیمات کو اپنانے کے دعویٰ کرنے کے باوجود اپنی ذات پر ان کو نافذ کرنے سے محروم ہیں۔
ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ تعلیمات دوسروں میں مکمل نافذ کردی جائیں اور خود کو ان سے مبرا رکھیں۔ لاکھوں لوگوں کے جلوس نکال کر بڑے بڑے نعرے لگا کر چوغے اور عمامہ باندھ کر ہم نے اوپری حصہ کو تو سجا لیا ہے مگر ہمارے دل ودماغ ان تعلیمات سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ ہمارے اعمال اور نیتوں میں کھوٹ کھل کر سامنے نظر آ جاتا ہے۔ ان چوغوں اور عماموں کے پیچھے اہل طائف کی تعلیمات بھری ہوئی ہیں۔ اپنے گریبان میں جھانکئیے کہ ہم عاشق رسول ہیں یا طائف کی اولادوں میں سے ہیں۔ یا طائف والے جو اپنی بد اعمالیوں کے پتھروں سے نبی کی تعلیمات پر پتھراﺅ، کرکے اسے لہولہان کررہے ہیں، یہ طائف والے ہم ہی میں سے ہیں۔ چاہے ہم حکومت میں ہوں یا حزب مخالف میں، کسی بڑے محکمہ میں ہوں یا اہم اداروں میں ان کے اعمال سے ان کو تلاش کر لیں گے۔
ممتاز قادری کی گولی عاشق رسول ہے یا فیض حمید کے ہزار کے نوٹ طائف والے، معاہدے کرکے مکر جانے والے، یا اس کے خلاف ہڑتال کرنے والے درگاہوں والے سجادہ نشین میڈیا والے جا طاقتور کا ساتھ دے کر طائف کی طریقوں پر عمل پیرا ہیں۔ امیر کے خلاف بغاوت کرنے والے پولیس والوں کو مارنے والے یا معلوم لوگوں کو اکسانے والے مذہب کا کاروبار چلانے والے یا تھانوں میں اور سڑکوں پر ظلم کرنے والے یا اپنے اختیار سے تجاویز کرنے والے ان میں سے کون ہیں۔ عاشق کون ہیں، طائف والے، ہر فریق دوسرے کو طائف زادہ سمجھ رہا ہے۔ اور خود کو عاشق۔ جو حقیقی معنی میں عاشق تھے ان کا موازنہ تو بڑی بڑی ہستیوں سے کیا جائے تو وہ ان کا مرتبہ سب سے بلند دکھائی دیتا ہے۔
ہمارے اکابرین نے قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود اپنی صالح تعلیمات اور خالص اعمال سے دنیا کو متاثر کیا اور ان تعلیمات کے ذریعہ ان کے دل و دماغ کو مغلوب کرکے حقیقی اسلام اور قرآن کی تعلیمات کے ذریعہ سچا مسلمان بنایا اس کے برخلاف ہم اہل طائف کی طرح ان تعلیمات اور احکامات پر پتھراﺅ کرکے ان کو لہولہان کررہے ہیں ہم نے اپنے سروں پر عمامے سجانے، جسموں کو مختلف چوغوں سے چھپانے، بڑے جلوس نکال کر بلند بانگ نعرے لگا کر اپنے آپ کو دھوکے دے رہے ہیں کہ ہم عاشق رسول ہیں۔ عاشق رسول بن کر ہم اہل طائف کے طریقوں کو اپنا رہے ہیں جو سچے عاشق رسول ہیں وہ اپنے اعمال، طور طریقوں سے نبی کی تعلیمات کو اپنی زندگی کے ہر گوشہ میں اپنائے ہوئے ہیں وہ ہی اویس قرنیؓ یا بلال حبشیؓ جیسی ہستیوں میں شمار ہو رہے ہیں۔

سرِ محشر شفاعت کے طلب گاروں میں ہم بھی ہیں
ہمیں بھی دیکھیے آقا خطا کاروں میں ہم بھی ہیں
ہمارے سامنے مسند نشینوں کی حقیقت کیا
غلامانِ نبی کے کفش برداروں میں ہم بھی ہیں
کبھی دنیا کے ہر بازار کو ہم نے خریدا تھا
بکاﺅ مال اب دنیا کے بازاروں میں ہم بھی ہیں
کرم اے رحمتِ کونین ان کو پھول سا کردے
گرفتار آتشِ دنیا کے انگاروں میں ہم بھی ہیں
ہمی ںبھی ایک چاﺅ ہو عطا اے ساقی کوثر
قدیمی بادئہ وحدت کے مے خواروں میں ہم بھی ہیں
کرم کی اک نظر ہم پر بھی ہو جائے شہ والا
تمہارے لطفِ بے حد کے سزاواروں میں ہم بھی ہیں
ہمارے سر پہ بھی سایہ رہے دامانِ رحمت کا
کرم فرمائیے مولا گناہگاروں میں ہم بھی ہیں
ہماری سمت بھی دیکھو کہ پھر دل میں بہار آئے
گلوں سے دور ہیں، الجھے ہوئے خاروں میں ہم بھی ہیں
ہمیں بھی ہو عطا تسکینؑ دل ہم پر کرم کردو
ہمارا حال بھی دیکھو کہ بیماروں میں ہم بھی ہیں
ہمیں بھی گل عطا ہو جائیں اخلاق و محبت کے
سجائے ہیں جو تم نے ایسے گلزاروں میں ہم بھی ہیں
تمہارا در جو مل جائے تو دنیا ہی بدل جائے
بھرو دامن ہمارا بھی کہ ناداروں میں ہم بھی ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں