دنیا میں مختلف طبعیت، مزاج اور کردار کے لوگ پائے جاتے ہیں جو اپنے رویے، اپنی حرکات و سکنات اور عمل سے اپنے اوپر مختلف ناموں کی چھاپ لگوا لیتے ہیں، جیسے علیحدگی پسند کچھ علیحدگی پسند صرف تنہائی نہیں چاہتے بلکہ آدم بے زار ہوتے ہیں لیکن چونکہ انسان کو ایک سماجی جانور بھی کہا گیا ہے لہذا ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہنے پر بھی مجبور ہیں لہذا کچھ علیحدگی پسند ایسے بھی ہیں جو گروپس کی شکل میں ہوتے ہیں جس طرح سے کئی ممالک ایسے ہیں جو دنیا سے کئی معاملوں میں علیحدہ رہنا چاہتے ہیں یہ ممالک کوشش کرتے ہیں کہ اپنے عوام کو یہ تربیت دیں کہ چادر دیکھ کر پاﺅں پھیلائیں اس کے ساتھ ساتھ یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ ضروریات زندگی کے سامان میں خود کفیل ہوں اس کے باوجود کچھ نا کچھ انہیں باہر سے لینا پڑتا ہے، آج کے ترقی یافتہ دور میں اب دنیا بہت چھوٹی ہو چکی ہے، سارے جہاں کی خبر ہے اس کے باوجود کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جن کا نام بہت زیادہ خبروں کی زینت نہیں بنتا لہذا کچھ لوگ تو ان ممالک کے نام بھی نہیں جانتے، نہیں معلوم یہ ممالک دنیا کے کس مقام پر ہیں اور جو جانتے ہیں تو برسوں ان ممالک کا تذکرہ نہیں کرتے مثلاً مالی، مالٹا، مکاﺅ، لاﺅس، انگولا وغیرہ کئی ممالک میں علیحدگی کی تحریکیں بھی چل رہی ہیں، یہ تحریکیں زبان، مذہب اور ثقافت میں فرق ہونے کی بنیاد پر وجود میں آتی ہیں لیکن یہ سب جو کہ کسی ایک ہی ملک کے باشندے ہوتے ہیں، اسی ملک میں علیحدگی چاہتے ہیں، بعض اوقات حقوق نا ملنا، اقلیت کی وجہ سے نفرت کا نشانہ بننا یا مذہب کی آزادی نا ہونا علیحدگی کا باعث بنتا ہے اور دہشت گردی بھی اس تحریک کا حصہ بن جاتی ہے۔
انڈیا میں جو کہ ہمیشہ پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کا رونا روتا رہتا ہے، 30 ایسے مسلح گروپ ہیں جو اپنے علاقوں میں آزادی اور علیحدگی کی تحریک میں حصہ لے رہے ہیں، جن میں سے کئی گروپ دہشت گردی کی لسٹ میں شامل ہیں، ان میں آسام، خالصتان، کشمیر اور کچھ شمال مشرقی حصے شامل ہیں، جہاں یہ علیحدگی کی تحریکیں ابھی بھی سر اٹھا رہی ہیں۔ تڑی پورہ، میگھالایا، منرورام، منی پور، آسام اور ناگالینڈ۔ اس وقت چونکہ کشمیر کا مسئلہ کافی شدت اختیار کئے ہوئے ہیں لہذا پہلے ہم ایک نظر کشمیر پر ڈالتے ہیں۔
انڈیا پر انگریزوں کے قبضے کے دوران کشمیر ایک آزاد ریاست تھی جس پر ڈوگرہ کی حکومت تھی، یہاں اکثریت میں مسلمان تھے اس کے بعد عیسائی، سکھ، بدھ اور ہندو مذہب کے لوگ کم تعداد میں تھے اور آج بھی ہیں، کشمیر کا مہاراجہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت یہ چاہتا تھا کہ کشمیر آزاد ریاست ہی رہے جب کہ عوام نے کوئی فیصلہ نہیں دیا۔ تقسیم کے بعد پاکستان کا اعلان ہوتے ہی گلگت کے کچھ قبائل کشمیر کے علاقے میں داخل ہوئے اور کوشش کی کہ کشمیر پاکستان کا حصہ بن جائے۔ اس دوران پاکستانی فوج بھی ان کی مدد کو آگئی۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندو سے مدد مانگی اور نہرو نے اس شرط پر مدد کی حامی بھری کہ کشمیر کو انڈیا میں شامل کیا جائے۔ اس وقت بھی کشمیری عوام خاموش رہے۔ ہری سنگھ نے شرط منظور کرلی اس پر کوئی احتجاج نہیں ہوا اور بھارتی فوج کشمیر میں داخل ہو گئی۔ پاکستانی فوج سے جھڑپ ہوئی، پاکستانی فوج نے کشمیر کا کچھ علاقہ قبضے میں کر لیا اور اسے آزاد کشمیر کا نام دیا باقی کشمیر کے علاقے پر انڈیا نے قبضہ کرلیا۔ کشمیر کے لوگ تقسیم سے پہلے اور بعد بھی یہ فیصلہ نہ کرسکے کہ ان کو کس کے ساتھ رہنا ہے یا پھر آزاد کشمیر رہنا ہے۔ اس مسئلے پر کشمیری عوام میں تین گروپ بنے ہوئے ہیں ایک گروپ پاکستان کے ساتھ ملنے کی حمایت میں ہے، دوسرا انڈیا کے ساتھ اور تیسرا آزاد رہنے کی حمایت میں ہے۔ اگر یہ تینوں کسی ایک بات پر اتفاق کرلیں تو شاید یہ مسئلہ حل ہو جائے۔ یہی حال فلسطین کا ہے جہاں فلسطینیوں نے علیحدہ گروپ بنائے ہوئے ہیں اور آپس میں لڑتے بھی رہتے ہیں۔ بہرحال یہ سب علیحدگی پسند ہونے کی مثالیں ہیں۔
دنیا میں ایک ملک ایسا بھی ہے جہاں کے رہنے والوں میں علیحدگی کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، علیحدہ ہونے کے لئے اور اپنے آپ کو دوسرے لوگوں سے مختلف برتر یا کمتر ثابت کرنے کا کوئی نا کوئی جواز پیدا کرلیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان سے پہلے انڈین کہلاتے تھے، انڈیا میں مسلمانوں کے قدم رکھنے سے پہلے کئی مذاہب تھے ان میں ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی اور بدھ مذہب کے لوگ نمایاں تھے۔ ان ہی لوگوں میں سے بے شمار لوگ آگے چل کر مسلمان ہوئے اور یہ تعداد کروڑوں میں پہنچ گئی۔ آج انڈیا یا پاکستان کے کسی بھی مسلمان باشندے سے ان کے اباﺅ اجداد کے بارے میں پوچھا جائے تو کوئی عربی کہتا ہے، کوئی ایرانی یا افغانی، کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ ان کے اباﺅ اجداد ہندو تھے، سکھ یا عیسائی تو ان کروڑوں لوگوں کی اولادیں کہاں گئیں جو مسلمان ہوئے تھے۔ بہرحال یہ تو اضافی بات تھی۔ ہمارے ہم وطنوں میں یہ علیحدگی کی بیماری کی وجہ کیا ہے اس کے لئے ہمیں تاریخ پر نظر ڈالنا ہوگی۔ ہندوستان میں جو لوگ ایران، افغانستان اور عرب سے آئے سب سے پہلے ان لوگوں نے اپنے ملک اور اپنے لوگوں سے علیحدگی اختیار کی اور ہندوستان میں بس گئے۔ بعد میں جب انگریز قابض ہو گیا تو پھر اس سے علیحدگی کی تحریکیں شروع ہو گئیں جب انگریز کے جانے کا وقت ہوا تو ہندﺅں سے علیحدہ ہو کر اپنا ملک بنانے کی تحریک شروع ہوگئی۔ چلئے جناب سب سے علیحدہ ہو کر جب اپنا ملک بن گیا تو علیحدگی کا مادہ سر اٹھانے لگا اب کیا کیا جائے۔ پاکستان چونکہ دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا، مغربی اور مشرقی، چونکہ مشرقی پاکستان کے لوگ زبان، رہن سہن ثقافت میں ہم سے مختلف تھے اور زیادتیوں کا نشانہ بھی بنے لہذا علیحدہ ہو گئے، اب صرف مغربی پاکستان رہ گیا، جہاں مختلف قوموں اور زبانوں کے لوگ آباد تھے، زبان اور کلچر کا فرق تھا لہذا صوبوں میں علیحدگی کا نعرہ لگنے لگا۔ قصہ مختصر یہ کہ علیحدگی کی بیماری صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ علیحدگی کے نشے نے ہمارے ملک میں کئی مسلکوں کو فرقوں کو جنم دیا جن کے علیحدہ علیحدہ گروپ بن گئے ہیں اور کوئی بھی ایک دوسرے سے متفق نہیں ہے۔ ایک دوسرے کے برابر بھی بیٹھنا گوارا نہیں ہے اگر بیٹھتے ہیں تو یہ سوال ہوتے ہیں، مذہب کیا ہے اگر مسلمان ہیں تو کون سے مسلک یا فرقے سے تعلق ہے۔ پھر کون سے شہر سے آئے ہیں، زبان کیا ہے اور ان ہی سوالات میں علیحدہ ہونے کا جواز بن جاتا ہے اور یہی سب خرافات دیار غیر میں بھی ہیں۔ یہاں پیدا ہونے والے بچے تو ان خرافات سے دور ہیں کیونکہ وہ امریکن سٹیزن ہیں، انہیں پاکستان سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ اسی طرح برطانیہ ہے، امریکہ میں اپنے وطن سے آنے والے ہر شہر میں مسلک یا فرقے کی بنیاد پر بٹے ہوئے ہیں، مساجد تک علیحدہ ہیں، اسی طرح زبان اور علاقے کی بنیاد پر گروپس بن چکے ہیں اور یہ گروپس آپس میں لڑتے بھی ہیں جب جب یوم پاکستان منانے کا موسم آتا ہے، لڑائی جھگڑے، گالم گلوچ زبان اور علاقے کی بنیاد پر فساد، پیسوں کا جھگڑا ان کی عمریں اور حرکتیں دیکھ کر شرم آتی ہے۔ بہرحال علیحدگی کے کیڑے کو بھرپور غذا میسر ہے۔
340