کارنامہ یا ایک نئی جنگ کی شروعات 146

ہم کہاں جارہے ہیں؟

وطن عزیز جس طرح کی صورتحال سے ان دنوں گزر رہا ہے اس کے ذمہ دار کون ہیں۔۔۔؟ اس کھیل میں فی الحال تو غیر ملکی سازش کا ہی ذکر کیا جاتا رہا ہے مگر اب دھیرے دھیرے ساری صورتحال قوم کے سامنے عریاں ہوتی جارہی ہے کہ گھر کو آگ لگی بدقسمتی سے گھر کے ہی چراغ سے والی صورتحال ہے، وہی پتے ہوا دینے لگ گئے ہیں جن پر قوم اور ملک کا تکیہ تھا، اب وہ کون ہیں؟ اس کی وضاحت اور تشریح کرنے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں اس لئے کہ مجھے اس کا چھی طرح سے فہم و ادراک ہے کہ میرے مخاطب بہت ذہین اور سمجھ دار لوگ ہیں جو باتیں محسوس کرنے والی ہوتی ہیں وہ بھی وہ سمجھ جاتے ہیں، ملک اس وقت بہت ہی نازک ترین صورت حال سے گزر رہا ہے۔ معاشی بحران اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے، ملک کے دیوالیہ ہونے میں بہت ہی کم فاصلہ رہ گیا ہے اور اس کے ذمہ دار اب سیاستدانوں سے زیادہ ان کے پاسبانوں اور رکھوالوں کو ہی ٹھہرایا جا رہا ہے جو بقول سابق وزیر اعظم عمران خان کے نیوٹرل ہیں اور وہ ملک کے لٹنے کا تماشہ انتہائی خاموشی کے ساتھ دیکھتے رہے ان کا یہ طرز عمل خود ان کے اس ساری سازش میں بالواسطہ یا براہ راست طور پر ملوث ہونے کے اشارے دے رہا ہے۔ یہ الزامات عمران خان سے لگائے ہیں کیا درست ہے اور کیا غلط یہ تو قوم جانتی ہے مگر بات اتنی سادہ بھی نہیں کہ اسے نظر انداز کیا جائے، ملک کے خلاف سازش ہوئی جس کے ٹھوس شواہد موجود ہیں، ملک کو دانستہ دیوالیہ پن کی جانب لے جا کر ملک کے ایٹمی اثاثوں کو سوالیہ نشان بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، عمران خان کا یہ اندازہ کہ اگر اب بھی صورتحال کو نہیں بدلا تو بہت خراب صورت حال کا ملک کو سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خدانخواستہ سقوط ڈھاکہ والی صورتحال دوبارہ پیدا ہو سکتی ہے یہ وہ تلخ حقائق ہیں جس سے ملک اس وقت دوچار ہے اس کی نشاندہی کرنا اس وقت عمران خان کا سب سے بڑا جرم بن گیا ہے کہ ان کے انٹرویو پر قرارداد تک پاس کروالی گئی، ان قراردادوں اور خود عمران خان کے گرفتاری یا ان کی مبینہ ہلاکت سے ملک کی صورتحال بدلنے والی نہیں، ملک کی صورتحال ان چور اور ڈاکو حکمرانوں کی لوٹی جانے والی دولت اور ان کے اثاثے قومی تحویل میں لئے جانے سے ہی بدل سکتی ہے، یہ حالات بڑے ڈائیلاگ سے حل نہیں ہوں گے جو سوائے خانہ پری اور سیاست کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔
ابھی تک ملکی عوام میں اس صورتحال سے اس قدر خوف و ہراس پھیل گیا ہے کہ وہ بینکوں کے لاکرز اور اکاﺅنٹ میں پڑے اپنے ملکی و غیر ملکی کرنسی کے علاوہ اربوں کے طلائی زیورات ہیرے وغیرہ نکلوا رہے ہیں انہیں ڈر ہے کہ کہیں حکومت ان کے اکاﺅنٹ پر ہی ہاتھ نہ صاف کرلے، ملکی عوام کا تو اب یہ بھی کہنا ہے کہ اس برسر اقتدار حکمرانوں کو ٹریک ریکارڈ کو دیکھ کر تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے لیا ہوا قرضہ بھی خود اپنی تجوریوں میں بھر لیں گے اور خود رفوفکر ہو جائیں گے اور اس کا علم آئی ایم ایف والوں کو بھی ہے لیکن اس کا خمیازہ کسی اور نے نہیں ملک اور اس کے رہنے والوں نے ہی بھگتنا ہے۔ خدانخواستہ ملک دیوالیہ ہو جائے گا تو اس کے رہنے والوں پر اس کا اثر پڑے گا جن کے اثاثے بینک بینلس ملک سے باہر ہے ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور اس وقت ملک پر حکمرانی کرنے والے بدقسمتی سے اسی طرح کے لوگ ہیں جو گملے کے پودے کی طرح سے اس ملک میں رہتے ہیں وہ وائس رائے بن کر آتے ہیں اور پھر لوٹ مار اور عیاشیاں کرکے چلے جاتے ہیں، ملک کے پاسبانوں اور ان کی سرحدوں کے رکھوالوں پر اب یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نیوٹرل کا لبادہ اتار کر اب اپنے کردار کو ادا کرنے آجائیں جو ان کا حقیقی کردار ہے اور جو ان کا منصب اب سے تقاضا کرتا ہے اگر اب بھی وہ نیوٹرل رہے تو یقین کیجئے کچھ بھی نہیں بچے گا، یہ سیاست یہ جمہوریت سب اس ملک کے دم سے ہے، ملک کا رہنا اس سے بڑھ کر ہے، یہ جمہوریت اور اس کا تحریک عدم اعتماد میر جعفر اور میر صادق کا ہتھیار ہی تو بنا جس کی آڑ میں وہ اب تک چھپے ہوئے ہیں، یہ جمہوری عمل کم اور سازش زیادہ تھی، جسے اب ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے، یہ ہی عمران خان کی کامیابی اور ان کے مخالفین کی ناکامی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں