Muhammad Nadeem Columnist and Chief Editor at Times Chicago and Toronto 683

ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے

نواز شریف، شہباز شریف، ملک ریاض، آصف علی زرداری، خواجہ برادران ہوں یا پھر دیگر سیاسی قائدین جو گزشتہ کئی دہائیوں سے حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ کیا تھے اور کیا بن گئے۔ دنیا نے دیکھا کہ سینما پر ٹکٹیں بلیک کرنے والے ہوں یا لاہور کی گلیوں میں سریہ بنانے کی فیکٹریوں کی بھٹیوں کی تپش میں کام کرنے والے یا ملک ریاض جیسے کلرک، کس طرح اور کیونکر راتوں رات دولت اور شہرت کی بلندیوں تک پہنچے اور ایسے فرعون بن گئے کہ جیسے خدائے بزرگ و برتر کی ذات کا وجود ہی نہیں۔ دولت کی دیوی مہربان ہوئی تو گردن میں ایسا سریا آیا کہ سامنے آنے والی ہر شہ کو چشم زدن میں نیست و نابود کردیا۔ یہ تو یہ ان کے حواریوں نے بھی ظلم و جبر کی انتہا کردی۔ ملک کو اس بری طرح لوٹا کہ جیسے پاکستان نہ ہوا، بازار حسن کی کوئی طوائف ہوگئی۔ کسی افسر نے ان کے معاملات میں مداخلت کی تو اسے دنیا سے رخصت کرادیا۔ کوئی حسینہ ان کی دولت کے انبار لئے پکڑی گئی تو اسے رہا کروا دیا۔ لانچوں کے ذریعہ ڈالرز دبئی اور پاکستان سے باہر یا پھر دیگر ممالک میں کیش کی صورت بھجوائے گئے۔ پکڑے جانے پر حقائق کو دبا دیا گیا۔ ان سب بدکاریوں اور بدمعاشیوں کے بعد پکڑے جانے پر بے غیرت کا یہ عالم ہے کہ اپنا کیس سیاسی اور قانونی طور پر لڑ رہے ہیں۔ یعنی عوام کے مردہ جسم سے کفن اتارنے کے بعد بھی سکون نہیں مل رہا۔ یہاں یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے بھی انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے لئے چھوٹ دی اور آج ان کی طنابیںکھینچی ہیں تو انہوں نے تو چلانا ہے۔ خود کو بچانے کے لئے ملکی دفاع کو ہی داﺅ پر لگانے سے دریغ نہیں کریں گے۔ کس قدر افسوسناک بات ہے کہ ہمارے صدر اور وزرائے اعظم بھی اپنے اٹھائے حلف کی پاسداری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بھارت، امریکہ اور برطانیہ کے آگے یوں اُلٹے لیٹ گئے ہیں کہ جس کی مثال نہیں ملتی اور کیوں نہ مجبور و لاچار ہوں، ان کا اربوں ڈالر ان ممالک کے بینکوں میں پڑا ہوا ہے جو شاید انہیں بھی کبھی نہ مل سکے کیونکہ چشم فلک نے دیکھا کہ معمر قذافی اور صدام حسین جیسے دولت مند لوگوں کا ان بیرونی آقاﺅں نے کیا حشر کیا۔ عراق اور لیبیا سے جس طرح ٹنوں کے حساب سے سونا امریکہ منتقل کیا گیا وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ یہ ممالک کب کس کے ہوئے ہیں؟ جنہیں اپنے ماں باپ کا نام معلوم نہ ہو ان سے وفا کی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام بیرونی آقا اپنے عوام اور اپنے شہریوں کے ساتھ اس قدر سیدھے کیوں چلتے ہیں کہ یہاں قانون کی بالادستی ہے یہاں قانون بکتا نہیں، یہاں کسی حد تک انصاف کا بول بولا ہے اور یہی وجہ ہے یہاں بسنے والا ہر شہری قانونی طریقے سے زندگی گزارنے کا پابند ہے۔
موجودہ پاکستانی حکومت کے سامنے بڑے چیلنجز ہیں ان کے اپنے دیئے ہوئے بیانات ان کے لئے مسائل پیدا کررہے ہیں۔ کبھی کبھی جذبات میں کہے گئے جملے اور بیانات آپ کی شخصیت کو متنازع بنا دیتے ہیں اور یہی کچھ عمران خان کی حکومت کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ملک کی معیشت تباہ حال ہے اور سابقہ حکومت بھی خزانے خالی کر گئی تاکہ آنے والی حکومت کے لئے مشکلات بڑھائی جا سکیں اور انہیں ناکامی سے دوچار کیا جائے۔ اب یہ عمران خان کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح اس پل صراط سے کامیابی سے گزرتے ہیں۔ پاک فوج کو ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہو کر نہ صرف سویلین کو بلکہ خود اپنے فوج کے جنرلوں کو احتساب سے گزارنا ہوگا وگرنہ نا انصافی کی صورت میں امکان اس بات کا ہے کہ فوج بھی اپنا مسخ چہرہ چھپاتی پھرے اور عمران خان کی حکومت بھی ناکامی سے دوچار ہو۔ اگر ایسا ہوا تو پھر نواز شریف، زرداری اور مولانا ڈیزل جیسے لوگ ایک بار پاکستانی عوام کو یرغمال بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ کیونکہ ”جاگ پنجابی جاگ“ اور ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے“ کا نعرہ آج بھی ہمارے 70 فیصد عوام کی دھڑکنوں کو تیز کردیتا ہے۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں