امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 327

ہولی، پاکستان، پاکستانی ہندو

ہمیں یقین ہے کہ آپ کشادہ دل قاری اور شہری ہیں۔ آپ کی اسی کشادہ دلی یا یا وسیع القلبی کے اعتماد میں ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ آپ وقتاً فوقتاً دیگر مذاہب، ثقافت، اور معاشرت کے شہریوں کو ان کے تہواروں، اور خوشی یا غمی کے موقعوں پر ان کو مبارک باد بھی دیتے ہوں گے اور ان کے ساتھ ہمدردی بھی کرتے ہوں گے۔ سو ہمیں یہ یقین بھی ہے کہ اس ہفتہ آپ نے نہ صرف کینیڈا یا امریکہ بلکہ ساری دنیا میں اپنے ہندو دوستوں کو ان کے اہم تہوار ہولی کے موقع پر انہیں مبارک باد دی ہوگی اور انہیں مٹھائی وغیرہ بھی پیش کی ہوگی۔ بالکل اسی طرح جس طرح عمران خان اور حکومتِ پاکستان نے اپنے ہندو شہریوں کو مبارک باد دی تھی۔
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ پاکستانی حکومت یا عمران خان یا دیگر مسلم سیاستدانوں کے بیانات صرف زبانی جمع خرچ ہوتے ہیں یا صدقِ دل سے دیئے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے حقائق ہمیں بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ہندو اقلیت سخت پریشانی اور دباﺅ میں رہتی ہے۔ ہم بارہا یہ سنتے ہیں کہ وہاں کم عمر نوجوان ہندو لڑکیوں کو جبراً مسلمان کرکے ان کی شادیاں مسلمانوں سے کر دی جاتی ہیں۔ یہ ایک طرح سے ایک تبلیغی یا مذہبی جہاد کے جذبہ کے تحت ہوتا ہے۔ ایسا جذبہ جس میں اس قسم کے اقدامات کا بنیادی مقصد دوسرے مذاہب اور قومیتوں کی نسل کشی یا Genocide ہوتا ہے۔
ہمیں یہاں پاکستان میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی قوموں کی تاریخ کے بارے میں اور ان کے پاکستان کی سر زمین پر بنیادی حق کے بار ے میں غور کرنا چاہیئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہندو مذہب دریائے سندھ کی وادی میں پھلا پھولا۔ یہ وادی جسے انگریزی میں Indus Valley کہتے ہیں ، اب پاکستان میں شامل خطے میں شمال سے سےجنوب تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں جو تہذیبیں پروان چڑھی ان کے مراکز میں ، موئینجو ڈارو، اور ہڑپا شامل ہیں۔ یہاں ہندو مذہب بھی پروان چڑھا اور یہیں ٹیکسلا Taxila میں بدھ مذہب کے بھی اہم مقامات بھی شامل تھے۔ ٹیکسلا میں ہی دنیا کی قدیم ترین جامعہ یا University بھی تھی جس میں ایک وقت میں بیس ہزار سے زیادہ طالب علم تھے۔ان میں چین،عراق، شام، یونان، اور بھارت بھر کے طلبا شامل تھے۔ مشہور ہندوستانی بادشاہ چند ر گپت موریا، بھی اپنے استاد یا اطالیق ، چانکیہ کوٹلیا کے زیرِ اثر اس جامعہ کاطالب علم تھا۔
تاریخ یہ شہادت بھی دیتی ہے کہ ساری وادی ءسندھ میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے باشندوں کی اکثریت تھی۔ یو ں اس سرزمین پر سب سے پہلا تاریخی، مذہبی ، سماجی، اور معاشرتی حق ان ہی کا ہے۔ اسلام کے عروج کے بعد بھارت پر مختلف ممالک سے، مسلمان حملہ آور ہوئے جن کا بنیادی مقصد وادی ئ سندھ کی دولت حاصل کرنا تھا۔ اسلام کی تبلیغ ان کا ضمنی یا ثانوی مقصد تھا۔ اس کی سب سے بڑی مثال محمود غزنوی کی ہے۔ جنہوں نے اس وادی پر سترہ، یا زیادہ حملے کیئے لیکن یہاں بسنا پسند نہیں کیا۔ رفتہ رفتہ یہاں اسلام پھیلتا گیا، اور اس سارے خطہ میں میں ہندو اقلیت بن گئے۔ اقلیت میں تبدیل ہونے کے بعد انہوں نے اپنے زیادہ تر انسانی حقوق گنوا دیئے۔ انسانی تاریخ ایسی ہی ہے، اس میں جہاں اسلام کا غلبہ ہوا وہاں اس کا زور چلا، جہاں عیسایﺅں کو عروج ملا، ان کا زور چلا۔ دنیا بھر میں ہوسِ ملک گیری کا سب سے بڑا مدد گار مذہب ہی ہوتا ہے۔ وادی ءسندھ پر حملہ آوروں کا مدد گار اسلامی مذہب تھا۔
پاکستان بننے کے بعد قائدِ اعظم کے بعض بیانات کا چرچا کیا گیا کہ وہ پاکستان کو ایسی ریاست بنانا چاہتے تھے جہاں سب مذہب کے لوگ مل جل کر غیر متصب طور پر رہیں گے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ قائدِ اعظم نے پاکستان یوں بنایا تھا کہ یہاں مسلما ن ہندوﺅں سے مختلف ایک قوم کے طور پر رہیں گے۔ یہی وہ نظریاتی تضادات ہیں جن کے نتیجہ میں سند ھ او ر پاکستان میں آباد ہندﺅں کو ترک وطن کرنا پڑا۔ جو یہاں رہ گئے وہ اب ایک دوسرے یا تیسرے درجے کے شہری بن کر رہنے پر مجبور ہیں۔۔
ہم نے اس ہفتہ جب دوستوں کو ہولی کے پیغامات بھیجے وہ خوشی اور غم کے جذبے کے تحت تھے۔ خوشی تو ہولی کی خوشی میں ذہنی طور شامل ہونے کی تھی۔ لیکن دکھ اس بات کاتھا کہ ہولی سے ایک دن پہلے جب ہم نے اپنے ایک عزیز پاکستانی سندھی ہندو دوست سے ان کے پاکستان میں رہنے کے بارے میں بات کی تھی، تو انہوں نے کہا تھاکہ انہیں پاکستان میں ہر دم محتاط رہنا پڑتا ہے، کہ نجانے کس کو ان کی کوئی بات کب بری لگ جائے۔اور انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔ ہمارے یہ سندھی ہندو دوست پاکستان میں اہم معاشرتی مقام رکھتے ہیں۔ ان کا تعلق انجینیر نگ کے شعبہ سے ہے۔ اور وہ ایک کامیاب کاروبار چلاتے ہیں۔ اگر ان جیسے شہری کو پاکستان میں ہر دم محتاط رہنا پڑے تو پھر ان ہندو شہریو ں کے ساتھ کیا ہوتا ہوگا، جو اتنے خوش نصیب نہیں ہے۔
ہم پاکستانی دنیا میں کوئی بھی مہذب مقام اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم یہ کہنے کہ قابل نہ ہوں کہ ہمارا ہر شہری بلا لحاظِ رنگ و نسل مساوی حقوق رکھتا ہے۔ ایسا ہم جب ہی کہہ سکیں کہ جب ہم غیر مذاہب کے شہریوں کو ہمار ا مذہب اختیار کرنے پر مجبور کرنا بند کر دیں۔ جب ہر شہری یہ کہہ سکے کہ وہ اپنے مذہب ، معاشرت اور ثقافت پر عمل کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہے اور اسے مجبوراً حتیاط نہیں کرنا پڑے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں