عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 203

یہ دھواں کہاں سے اُٹھ رہا ہے۔۔۔؟

دھواں آگ پر دلالت کرتا ہے، دھواں اسی وقت اٹھتا ہے جب اردگرد میں کہیں نہ کہیں آگ لگی ہو۔ بنا آگ کے دھوﺅں کا اٹھنا بالکل اسی طرح سے ہے جس بن بادلوں کے برسات کا ہونا اور یہ پھر معجزہ ہی کہلاتا ہے۔ اس وقت جو سیاسی ڈرامہ بازی ملک میں چل رہی ہے یہ بلا کسی ایجنڈے یا پھر بلا کسی اشارے یا ڈکٹیشن کے ہے۔ بالکل غلط اور سراسر دوسروں کو بے وقوف بنانے یا پھر دھوکہ دینے کے ہیں پاکستان میں اس طرح کے انقلابی اقدامات بلاوجہ کے نہیں بلکہ باضابطہ منصوبہ بندی کے نتیجے میں ہی کئے جاتے ہیں۔ یہاں کا انتخابی عمل اور اس کے نتائج تک منصفانہ نہیں بلکہ ڈکٹیشن کا نتیجہ ہوتے ہیں تو پھر یہ کس طرح سے کیا جا سکتا ہے کہ ایمپائر یا پھر اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے اس وجہ سے یہ نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں جو سیاستدان یا پھر تجزیہ نگار اور دانشور اس طرح کی تاویلیں پیش کررہے ہیں وہ دراصل اس کھیل کے حامی ہیں اور سب کچھ ان کے حسب منشا ہو رہا ہے اس لئے وہ اسے نیوٹرالیٹی کا نام دے رہے ہیں حالانکہ وہ بھی جانتے ہیں کہ ایمپائر یا پھر اسٹیبلشمنٹ کے مرضی کے بغیر پاکستانی سیاست میں کوئی کونسلر بھی نہیں بن سکتا۔ حکومت بنانا حکومت گرانا عدم اعتماد کی تحریک لانا یہ تو دیوانے کا خواب ہے۔ یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب ایمپائر ایسا کرنا چاہیں تب جا کر ہمارے ہاں کے داغی سیاستدان دم ہلاتے ہوئے درباریوں کی طرح سے کام کرتے ہیں اور اب بھی اسی طرح سے ہو رہا ہے۔ ایسا سب کچھ ہونے کا ذمہ دار اپوزیشن اور مقتدر قوتوں سے زیادہ خود عمران خان اور ان کے بعض فیصلے ہیں یہ تو سب کو معلوم ہے کہ عثمان بزدار کے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے پر سب سے زیادہ تحفظات ان ہی لوگوں کو تھے جو عمران خان کو اقتدار میں لانے کا باعث بنے تھے وہ ایک بار نہیں بلکہ درجنوں بار عمران خان کے آگے احتجاج کر چکے تھے کہ آپ کا پنجاب کا انتخاب غلط ہے۔ پنجاب میں انتظامی معاملات کرپشن میں بہہ رہے ہیں۔ عثمان بزدار کو تبدیل کردیا جائے مگر ہر بار عمران خان اپنی ضد اور انا کی وجہ سے آڑے آجاتے تھے اور عثمان بزدار کی وہ حمایت کرنے لگ جاتے تھے جس کی وجہ سے ان قوتوں اور خود عمران خان میں فاصلے بڑھنا شروع ہو گئے اور وہ فاصلے اب اتنے بڑھ چکے ہیں کہ اب عمران خان کے پاس ایک ہی آپشن رہ گیا ہے کہ یا تو وہ خود کو بچائیں یا پھر عثمان بزدار کو۔۔۔
اپوزیشن کے عدم اعتماد تحریک کے لئے ایک دوسرے سے ملنا، لانچ مارچ کرنا اور اس کے بعد اچانک جہانگیر ترین کا علاج کے بہانے لندن چلے جانا اور اب آخر میں سونے پہ سہاگہ علیم خان کا ترین گروپ میں اپنے حامی اراکین اسمبلی کے ہمراہ شمولیت اختیار کرنا۔ ایک کے بعد ایک دھچکا۔ کوئی خودبخود تو نہیں ہو رہا بلکہ یہ سب کچھ کروایا جا رہا ہے اور اس سب کروانے میں اب اپنوں کے علاوہ وہ غیر بھی شامل ہو گئے ہیں جو پاکستان کو روس کے قریب جانے سے سخت پریشان تھے وہ سب بھی عمران خان کو مزید پاکستان کا وزیر اعظم دیکھنا نہیں چاہتے۔
یہ کیا کہ سب کچھ خودبخود ہو رہا ہے، ایمپائر یا اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے یہ خود کو نہیں تو کم از کم ملکی عوام کو تو دھوکہ دینے کے مترادف ہے، سچ تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ ان کی مرضی سے ہی ہو رہا ہے لیکن اگر وہ یہ سب کچھ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو تبدیل کروانے کی غرض سے کررہے ہیں تو پھر تو بہت ہی اچھا ہے ہر حقیقت پسند ایماندار اور محب وطن پاکستان ان کے ساتھ ہے اس لئے کہ عثمان بزدار اور ان کی لٹیری ٹیم نے پنجاب میں سوائے لوٹ مار کے اور کچھ بھی نہیں کیا انہیں نہ صرف وزارت اعلیٰ کے منصب سے فوری طور پر ہٹا دینا چاہئے بلکہ ان کے خلاف کرپشن کے ریفرنس نیب میں بننا چاہئیں اور ان کی اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جانی چاہئے اور اگر یہ ساری سیاسی ڈرامہ بازی عمران خان کے حکومت کا بوری بسترا لپیٹنے کے لئے کی جارہی ہے تو پھر یہ اس ملک اور اس سیاسی کلچر اور جمہوریت کے ساتھ ایک بہت بڑا مذاق ہو گا اور پھر یہ ہر کوئی یہ کہنے پر مجبور ہو گا کہ پاکستان میں اقتدار الیکشن یا پھر ملکی عوام کے انتخاب کے نتیجے میں کسی کو نہیں ملتا بلکہ کس کو اقتدار میں لانا ہے اور کسے نہیں اس کا فیصلہ کوئی اور کرتا ہے۔
خدارا ملک کو جمہوری عمل کو مزید مذاق بنانے سے گریز کیا جائے ملک پہلے ہی قیام پاکستان کے بعد سے اب تک جمہوری طرز عمل کے لئے ترستا رہا ہے اسے مزید غلامی کے اندھیروں میں دھکیلنے سے گریز کیا جائے۔ ملک کے فیصلے منتخب عوامی نمائندوں کو ہی کرنے دینا چاہئے جو ان کا قانونی و اخلاقی حق ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں