حضرات ہمارے بعض اشعار ہمارے حالات پر اس قدر طاری ہو جاتے ہیں کہ بے ساختہ زبان پر آکر دل میں اتر جاتے ہیں اب یہ شعر ملاحظہ ہو کہ
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہ غم میں سہی نغمہ شادی نہ صحیح
اور اب پاکستان میں نوحہ غم کو نوحہ غم نہیں بلکہ اسے گھر کی رونق تصور کیا جاتا ہے ابھی حال ہی میں گھر کی بے رونقی دور کرنے کے لئے گیارہ میتوں کو کئی دن خون جمانے والے سردی میں ان کے عزیز و اقربا کے ساتھ کھلے میدان میں المیےکی تقریب منعقد ہوئی یہ کتنوں کے لئے نوحہ غم ہو گا مگر اس 23 کروڑ کی آبادی کے لئے نغمہ شادی بن گیا۔ اخبارات، ٹی وی، اینکرز اور سیاسی پارٹیوں کی روزی روٹی بن گیا۔ بہت سوں کے لئے اللہ کی مرضی یہی تھی کہہ کر اسے اللہ میاں کی طرف منتقل کرکے اس غم سے گزرنے والوں کو تسلی دے دی گئی۔ کچھ نے کہا کہ سیاست میں تو یہ ہوتا ہے مگر میرے عزیزو یہ محنت کش، یہ مزدور، یہ غریب خط فقیری کی حد سے کہیں نیچے زندگی گزارنے والے یہ اپنے گھروں سے بے گھر ہونے والے یہ چار چار بہنوں کے اکلوتے بھائی جن کے جنازے ان کی بہنوں نے اٹھائے کون سی سیاست کررہے تھے اور اگر سیاست کا ثمر یہی ہے تو پھر سیاست دانوں کے لخت جگر کیا ان کے بیٹے کیا ان کی بیٹیوں کو بھی اس راہ سیاست سے گزرنا پڑا ہے ایک خاندان اپنی شہیدوں کی دوکان لگائے بیٹھا ہے۔ وہ پورا خاندان جو حصول اقتدار نشہ آور ادویات اور خود اپنے مجازی خدا اور خود اپنے ہی بہن کے شوہر کے ہاتھوں قتل ہوا ہے اب خود کو شہید سیاست کہہ کر اپنا کاروبار چمکا رہے ہیں۔ کیا لوہاروں کے خاندان میں بھی کوچہ سیاست کا شہید ہے کہ یہ سب لقمہ حرام کے لئے وطن کو چھوڑ کر پردیس میں بادشاہوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں یا وہ نام نہاد مذہبی راہنما جو اربوں کروڑوں کا مالک ہے۔ دہشت گردوں کے ذریعہ قتل عام کا ذمہ دار ہے۔
یہ چُوری کھانے والے رانجھے عیش و عشرت کی زندگی گزارنے بھی کبھی اس پرخار راہ سے گزر ہیں۔ اے لوگو ذرا غور کرو اور اگر دل ہے تو اس پر ہاتھ رکھ کر ایک انسان (اگر تم انسان ہو تو) فیصلہ کرو کہ کیا ان مقتولین کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ ایک مخصوص فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کیا وہ محمد عربی کے نام لیوا نہیں ہیں کیا وہ قرآن و سنت سے انکار کرتے ہیں، کیا وہ صوم و صلوٰة کے پابند نہیں ہیں کیا وہ منکر زکوٰة ہیں اور کیا انہوں نے کبھی سواد اعظم کو کافر قرار دیا ہے یہ بچارے رسول کی آل کے غم منانے والے یہ مظلومین کربلا کے لئے آنسو بہانے والے یہ صرف گریہ کرنے والے یہ سینہ کوبی کرنے والے کیا کسی کے دشمن ہو سکتے ہیں۔ کیا ان کا قصور صرف یہ ہے کہ کوئی ان کی پشت پناہی اور دادرسی کرنے والا نہیں ہے اور آخری سوال کیا یہ گیارہ افراد کا قتل اس کہانی کی آخری قسط ہے جسے نام نہاد ”مومنین“ لکھتے آرہے ہیں، نہیں ابھی نہیں قسطیں باقی ہیں، انتظار فرمائیے، جب تک وہ مہیب الاسباب اس ظلم کی ناﺅ کو غرق نہیں کرتا جب تک کوئی چنگیز یا ہلاکو آکر ان کے سروں کے مینار نہیں بناتا جب تکک کوئی نادر شاہ ایرانی مسجد کی سیڑھیوں ر کھڑا ہو کر قتل عام کا نظارہ نہیں کرتا تب تک یہ کہانی جاری رہے گی اس کے مصنفین کی کہانیاں بھی یہی لکھی جارہی ہیں اب ان کے سیریل بھی چلنے شروع ہو گئے ہیں یہ وہ فرعون وقت، شداد زمانہ اور قاون دوران کے زوال کا ڈرامہ شروع ہو چکا ہے اور دنیا ان کی ہر قسط کو مزے لے لے کر دیکھے گی۔
تازہ ترین گیارہ مقتولین کی قسط کی اس سے پہلے کی اقساط ملاحظہ ہوں۔ یہ خونی ڈرامہ کی 2013ءتک کی اقساط ہیں جس کی تازہ ترین قسط تین جنوری 2021ءناظرین یا تمکین نے ملاحظہ فرمائیں۔ 2001ءسے 2018ءتک مملکت خداداد اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں 2693 شیعہ مسلکی افراد مسلکی اختلاف کے جرم میں مار دیئے گئے (شیعہ انہیں شہید کردیئے گئے ہیں کہ انہوں نے کوئی مذہبی یا مسلکی جرم نہیں کیا تھا) ان میں بڑی تعداد ان ہی غریب ہزاروں کی تھی۔
9 فروری 2001ءہزارہ ٹاﺅن عملدار روڈ کوئٹہ کے راستے میں آٹھ ہزارہ مسافر مار دیئے گئے۔ وجہ نامعلوم۔ 9 فروری 2001ءکے اس قتل کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی۔ آٹھ جون 2003ءمیکانگی روڈ کوئٹہ پر نماز جمعہ کے دوران حملہ، جس کے نتیجے میں 55 ہزارہ ہلاک اور 150 سے زائد زخمی ہوئے۔ جرم نماز؟
2 مارچ 2004ءلیاقت بازار کوئٹہ یوم عاشور کا جلوس کے دوران اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں 60 افراد موقعہ پر ہلاک 100 سے زیادہ زخمی لشکر جھنگوی نے کھلے عام اس کی ذمہ داری قبول کی۔ جرم رسول کے نواسے کے غم میں آہ و بکا؟ 10 جنوری 2007ءاغا جوس کے ہزارہ مالک اغا غلام علی کراچی میں مار دیئے گئے جب کہ ان کے والد آغا عباس علی کو بھی 2002ءمیں کھلے بندوں مار دیا گیا، جرم شریف النفس با اخلاق انسان؟ 3 ستمبر 2010ءقدس ریلی کوئٹہ میں بم دھماکہ 73 افراد ہلاک اور 206 شدید زخمی، لشکر جھنگوی پھر اس ”ثواب“ کا ذمہ دار۔ 16 اپریل 2010ءسول اسپتال کوئٹہ بم دھماکہ 12 افراد ہلاک 47 شدید زخمی بھی ہزارہ قوم سے تعلق رکھنے والے ایک قومی اسمبلی کے رکن سید ناصر علی شاہ بھی شامل تھے اور ان کے صاحبزادے بھی جان سے گئے۔ اس کے علاوہ دو پولیس اہلکار جو ہزارہ تھے بھی ہلاک ہوئے۔
یہ سب ایک مقتول شیعہ بینک مینجر کی تعزیت کے لئے وہاں پہنچے تھے جو نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہوا تھا۔ لشکر جھنگوی نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ 6 مئی 2011ءعلی الصبح ہزارہ ٹاﺅن کوئٹہ کے میدان میں کھیلتے ہوئے نوجوان ہزارہ لڑکوں اور بچوں پر مسلح افراد نے راکٹ سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں 8 نوجوان ہلاک اور پندرہ شدید زخمی ہوئے جن میں کم عمر بچے بھی شامل تھے۔ 16 جون 2011ءابرار حسین پاکستانی اولمپیئن باکسر اور بلوچستان اسپورٹس بورڈ کے چیئرمین کو ہزارہ ہونے کے ”جرم“ میں ایوب نیشنل اسٹیڈیم میں ہلاک کردیا گیا۔ 31 اگست 2011ءہزارہ عیدگاہ پر عید کے دن خودکش حملہ کرکے 13 افراد کو ہلاک کردیا گیا’ ”جرم“ عید کی نماز۔ اس میں 22 افراد زخمی ہوئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ 20 ستمبر 2011ءتافتان جانے والے زائرین کی بس کو ستونگ کے مقام پر روک کر شناختی کارڈ چیک کرکے 29 شیعہ اور ہزارہ افراد کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ 22 ستمبر 2011ءکو 5 ہزارہ افراد کو ایک وین پر فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا۔ 26 جنوری 2012ئ، تین ہزارہ افراد کو کوئٹہ میں سرعام گولیاں مار کر ہلاک کردی اگیا جن میں دو سرکاری ملازم اور ایک ٹی وی آرٹسٹ عابد علی نازش شامل تھے۔ 29 مارچ 2012ءہزارہ ٹاﺅن سے چلنے والی ایک ٹیکسی کو گولیاں سے چھلنی کرکے سات افراد کو ہلاک اور چھ کو شدید زخمی کردیا گیا تھا۔ متاثرین میں تین خواتین اور چند بچے بھی شامل تھے۔ تین اپریل 2012ئ۔ دو ہزارہ افراد کو میکانگی روڈ کوئٹہ پر گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا۔ لشکر جھنگوی نے ذمہ داری قبول کرلی۔ یہ کہانی ابھی نامکمل ہے۔ آئندہ قسط میں اسے بیان کری ںگے تب تک مزید مواد بھی حاصل ہو جانے کی امید ہے۔ انتظار فرمائیے۔ (جاری ہے)
504