۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 657

۔۔۔ تو کراچی صوبہ کیوں نہیں؟ (2)

ان تلخ حقائق کی روشنی میں اگر کراچی کے مظلوم عوام اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کے شہر کو ایک خودمختار انتظامی یونٹ کا درجہ دیدیا جائے تو سندھیوں کو آگ لگ جاتی ہے جب کہ تاریخی لحاظ سے کراچی بقول مرزا جواد بیگ راہنما کراچی صوبہ تحریک از سکندر اعظم تا قائد اعظم کراچی کبھی سندھ کا حصہ نہیں رہا۔ سندھ، ممبئی ریذیڈنسی کا حصہ تھا اور سندھ حیدرآباد تک تھا جب کہ کراچی بلوچستان اور لسبیلا کا حصہ تھا۔ 1943ءمیں سندھ کو بمبئی ریذیڈنسی سے علیحدہ کیا یعنی پاکستان بننے سے صرف 4 سال قبل اب جب کہ کراچی کی ترقی اور دولت کی ریل پیک ہوئی تو سندھ کے مفاد پرست عناصر نے کراچی کو سندھ کا اٹوٹ انگ کے لئے کی رٹ لگالی حالانکہ ہندوستان سے آنے والوں کو آئین اور قانون کے تحت کہ جب تقسیم ہوئی تو دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ ہوا تھا کہ ہندوستان سے پاکستان آنے والوں کی جائیداد پر پاکستان سے ہندوستان جانے والوں کا حق ہوگا۔ اسی طرح جو ہندوستان سے لوگ آئیں گے ان کا حق یہاں سے جانے والوں کی زمینوں اور جائیداد پر ہوگا۔ اس معاہدے کے تحت سندھ کی 43 فیصد متروکہ زرعی اراضی اور جائیداد پر مہاجروں کا حق ہے جب کہ سندھی وڈیروں کی جو چالیس فیصد زرعی اراضی بندوﺅں کے پاس گروی بھی تھی ان پر بھی تارکین وطن کا حق تھا مگر سندھی وڈیروں نے موقعہ سے فائدہ اٹھایا اور نہ صرف گروی شدہ زرعی زمینوں پر قبضہ غاصبانہ کرلیا بلکہ جو زمین مہاجروں کو کلیم میں ملیں وہ بھی زبردستی قبضے میں لے لیں یا انہیں اس قدر تنگ کیا گیا کہ وہ اپنی اراضی کو اونے پونے بیچ کر رُخصت ہو گئے۔ کراچی، حیدرآباد اور سکھر میں جو تجارتی خلاءہوا کیونکہ سارا کاروبار ہندوﺅں کے ہاتھ میں تھا اسے نئے آنے والوں نے پُر کیا اور اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر تجارت اور صنعت کے میدان میں ترقی کے مراحل طے کرکے اسے آسمان پر پہنچا دیا۔ یہی نہیں بلکہ ان لوگوں نے تعلیمی اور رفاعی ادارے بھی قائم کئے کیونکہ سندھ میں ہندوﺅں کے تعلیمی ادارے تھے جب کہ مسلمانوں کو یہ توفیق ہی نہیں تھی کہ وہ اس میدان میں کچھ کرسکتے جب کہ کراچی (جو کہ سندھ کا حصہ نہیں تھا) میں پارسیوں اور ہندوﺅں نے تعلیمی ادارے قائم کئے تھے جن کے بعد ہندوستان سے آنے والوں نے نہ صرف انہیں ترقی دی بلکہ پورے شہر میں انتہائی اعلیٰ معیار کے اسکول، کالجز اور یونیورسٹیاں قائم کیں۔ کراچی کا مہاجر جو کہ تجارتی اور صنعتی منصوبوں میں گم تھا اس نے سیاست کو کبھی اپنا میدان نہ سمجھا اور وہ قانون پابند شہری کی طرح اپنے کاموں میں مگن رہا۔ انہیں اس وقت ایک دھچکا لگا جب ایوب خان نے دارالحکومت اسلام آباد منتقل کرنے فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں احتجاج بھی ہوئے مگر اس وقت یہ اُردو بولنے والے ہی تھے جنہوں نے کھل کر مخالفت کی اور صدر ایوب کا کھل کر مقابلہ کیا اور صدر ایوب کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دے کر اس شہر کو حزب اختلاف کا شہر کہلوا کر اسے حکمرانوں کی نفرت کا ہدف بنا دیا۔ اس وقت سندھی صرف اپنے مفادات حاصل کرتا رہا اور حکومت میں شریک رہا۔ اسی وقت سے سندھ کی سیاست میں سندھ کے وڈیرے داخل ہوئے اور کرپشن کی بنیاد پڑی۔ آج جمہوریت کے چیمپئن بننے والا ایوب کھوڑو بھانجہ نثار کھوڑو کا سلسلہ ہی کرپشن اور بدعنوانی سے شروع ہوا۔ ایوب کھوڑو نے پاکستان بنتے ہی ہندوتوازی میں دریا سندھ کے لئے درآمد کی جانے والی نہر سے مٹی نکالنے چھ ڈرینجر جو برطانیہ سے آئیں تھیں میں سے چار کو ہندوستان بھیج دیا اس کے علاوہ صوبے میں ناجائز الاٹمنٹ سے قبضوں کے سلسلے میں اس پرایبڈو اور پیروڈا کے تحت مقامات ہے اور اسے سزا بھی ہوئی تھی (مارشل لاءکے بعد ایوب کھوڑو کچھ عرصے وزیر دفاع بھی رہا) میں نے خود اپنی آنکھوں سے اسے صدر ایوب کے اوباڑو ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ہاتھ باندھے کھڑا دیکھا جو یہ صدر ایوب سے معافی کے سلسلے میں آیا تھا۔ مگر صدر ایوب نے اس کی طرف ایک نظر بھی نہیں ڈالی اور چلے گئے۔ موجودہ اسپیکر صوبائی اسمبلی سراج الدین درانی جس کا باپ صدر الدین درانی سندھ اسمبلی کا اسپیکر تھا اور سکھر سے کراچی ٹرین میں جرنلسٹ کے کارڈ پر صحافی کے طور پر 40 فیصد کرایہ دے کر سفر کے الزام میں پکڑا گیا تھا۔ یہ خبر اس وقت اخبارات کے صفحہ اوّل پر چھپی تھی۔
خیر یہ تو برسبیل تذکرے تھے۔ اب کراچی کو جب ایک ایسا شہر قرار دے دیا گیا جہاں ہر صوبے کے آدمی کو آنے کی آزادی ہے اور اسے وہاں وافر مقدار میں رزق میسر ہے تو سرحد، پنجاب، بلوچستان سے کثرت میں لوگ کراچی آئے اور اس کے وسائل سے بہرمند ہونے لگے کہ بھٹو نے اقتدار حاصل کیا، کیسے کیا، یہ تو تاریخ کا حصہ ہے کہ خود بھٹو کا باپ انگریزوں کا کاسہ لیسی کرکے سر کا خطاب حاصل کرنے والا اور سندھ میں زرعی زمین لینے والا تھا۔ بیٹا جو کہ بمبئی میں نرگس اور مدھوبالا کے گھروں کے چکر لگاتا رہتا تھا، پاکستان بننے کے بعد ڈکٹیٹر ایوب خان کی نظروں میں آگیا اور اسے ڈیڈی کہنے لگا۔ اس نے اسی ڈیڈی کے خلاف محلاتی سازشیں کرکے پیپلزپارٹی بنائی اور حصول اقتدار کے لئے روٹی، کپڑا اور مکان کے سبزباغ دکھا کر اقتدار حاصل کرلیا۔ اس نے اقتدار میں آتے ہی اپنے ہی پارٹی کے سینئر افراد کے ساتھ جو کچھ کیا وہ تو ایک الگ ہی کہانی ہے مگر اس نے محسوس کیا کہ جاہل سندھیوں کو تو وہ سندھ کارڈ کھیل کر راجہ داہر کی اولاد بنا کر اور وڈیرہ شاہی ذریعہ رام کر سکتا ہے مگر پڑھا لکھا، تہذیب یافتہ اور با صلاحیت مہاجروں کو وہ اپنے دام میں نہیں لا سکتا سو اس نے سب سے پہلا وار 1500 اعلیٰ بیوروکریٹ بیک جنبش قلم نکال باہر کیا جن میں 90 فیصد سے زائد اُردو بولنے والے تھے اس کے بعد اس نے تعلیم اور صنعتوں کو قومیانے کا سلسلہ شروع کیا جس کے تحت کراچی کے انتہائی اعلیٰ معیار کے تعلیمی ادارے سرکاری درسگاہیں بن کر پستی میں پہنچ گئیں جب کہ شہر کراچی کی صنعتیں بھی مہاجروں کی تھیں انہیں قومیا کر صنعتوں کو تباہ و برباد کردیا گیا اور صنعت کاروں کے خلاف کارروائیں کرکے انہیں کنگال بنا دیا گیا جیسے لاری خاندان جن کو لاڑکانہ میں کارخانے کلیم میں ملے تھے اور انہوں نے ایک انتہائی ملکی معیار کا اخبار ”سن“ نکالا تھا، بھٹو نے ذاتی عناد کے تحت اس خاندان کو بھی عرش سے فرش پر لا بٹھایا۔ اس کے ساتھ ہی بھٹو نے بیوروکریسی کو سندھی گردی کے تحت پبلک سروس کمیشن کو طاق پر رکھ کر اسٹیٹ پریذیڈنٹ پولیس اور سب ڈویژنل مجسٹریٹ کے عہدوں پر براہ راست بھرتیاں شروع کیں اور اس میں وڈیروں کے نا اہل اولاد کو بھرتی کیا، ان میں ایک بھی اُردو بولنے والا نہیں تھا، نتیجہ یہ نکلا پولیس اور ایڈمنسٹریشن میں یہی افراد ترقی کرتے کرتے اعلیٰ عہدوں پر پہنچے اور پبلک سروس کمیشن میں اپنے افراد شامل کرکے سندھ کے اُردو بولنے والوں کے راستے بند کردیئے گئے۔ اس کے بعد پی آئی اے، اسٹیل ملز، گیس کمپنی، بینکوں اور دیگر اداروں میں سندھیوں کو ملازمتیں دے کر ان اداروں کو نا اہلوں سے بھر کر انہیں محض دولت کمانے کا ذریعہ بنا لیا اس طرح پوری معیشت تباہ ہو گئیں، بھٹو کی چال تھی کہ سندھ میں مہاجروں کو دوسرے اور تیسرے درجے کا شہری بنا دیا جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں