امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 759

آئین ِ نو سے ڈرنا، طرزِ کُہَن پہ اَڑنا؟

آج ہم نے بی بی سی پر عرب دنیا کا ایک سروے دیکھا تو ہمیں اقبال کا ایک شعر یاد آیا۔۔” آئینِ نو سے ڈرنا ، طرزِ کہن پہ اڑنا۔۔ منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں “۔۔ ، پھر دوسرا شعر یاد آیا کہ، ” یہ کاروانِ ہستی ہے تیز گام ایسا ۔۔قومیں کچل گئی ہیں، اس کی روا روی میں۔۔
سروے کا عنوان ہے کہ عرب دنیا کے چند ممالک رفتہ رفتہ مذہب سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی دلیل سروے نے یوں دی کہ اب سے پہلے عرب دنیا کے صرف آٹھ فی صد لوگ مذہب سے دور تھے اور اب تقریباً تیرہ فی صد اس ضمن میں شامل ہو گئے ہیں۔ یہ کوئی ایسی اچنبھا خیز خبر تو نہیں تھی، جسے شہ سرخی بنایا جاتا۔
اصل خبر جو انہوں نے پسِ شہ سرخی رکھی ،وہ یہ تھی کہ گو عرب دنیا کے اکثرممالک کسی خاتون کو اپنا سربراہِ مملکت ماننے میںایک حد تک راضی ہیں، لیکن ان ہی ممالک کی بڑی اکثریت خواتین کو خاندانی معاملات میں مردوں اور بالخصوص شوہروں کے طابع رکھنا چاہتی ہے۔ اور یہ بھی کہ ان ممالک میں عزت کے نام پر قتل کو ہم جنسی کے مقابلے میں بدرجہ حمایت حاصل ہے۔
جن عرب ممالک میں یہ سروے کیئے گئے ان میں ، تیونس، لیبیا، لبنان، الجزائر، مراکش، مصر، سوڈان، فلسطین، اردن، عراق، اور یمن، شامل ہیں۔ اس سروے میں رائے دہندگان سے تقریباً ایک گھنٹے کے انٹرویو کیئے گئے اور رائے دہندگان کی شناخت خفیہ رکھی گئی۔ ایک خاص بات یہ تھی کہ خلیجی ممالک کی حکومتوں نے اس سروے کے بعض سوالات پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ کویت کی اجازت اتنی دیر میں ملی کہ وہاں کی آرا کو سروے میں شامل نہیں کیا جا سکا۔
اس سروے کا بین السطور مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ اکثر عرب اور مسلم مملک اب تک چھٹی اور ساتویں صدی کے زمانے میں بس رہے ہیں۔ ہم آگے بڑھنے کے بجائے ماضی میں سکون اور اپنی طرزِ زندگی کی دلیلوں میں مست ہیں۔ جب آپ پاکستان میں بارہا نظامِ حکومت کو خلافتِ راشدہ، خلافت ِ عثمانیہ، اور ریاستِ مدینہ کے طرز پر چلانے کی باتیں سنتے ہیں تو آپ کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس اکیسویں صدی میں، یا پندھرویں ہجری صدی میں بھی ہم اپنا مستقبل چھٹی صدی عیسوی، یا پہلی صدی ہجری میں تلاش کرتے ہیں۔
اس بات کو اور بھی وضاحت سے سمجھنے کے لیئے ہمیں عصرِ حاضر میں ابلاغِ عامہ کے پیغمبر ، مارشل مکلوہان کی فکر سے استفاد کرنا چاہیے ، جس نے کہا تھا کہ، ”ہم اپنے حال کو ماضی کے عقب نما آئینہ میں دیکھتے ہیں، ہم پیچھے کی طرف چلتے ہوئے مستقبل میں سفر کرنا چاہتے ہیں،۔۔۔
(We look at the present through a rear-view mirror . We march backwards into the future)
یعنی ہم اپنے مستقبل کو ماضی کی اسطورہ کے تجربات میں طے کرتے ہیں۔ ایسا ماضی کہ جو ہم خود بھی نہیں سمجھ سکتے ہیں۔ ماضی کی اہمیت کے بارے میں سبطِ حسن نے اپنی کتاب ، ” ماضی کے مزار “ میں بات کی ہے۔ لیکن وہ موجودہ نسلوں میں ماضی کے بہتر اثرات کی بات کرتے تھے۔ لیکن وہ موجودہ نسلوں کو ماضی میں گاڑے رہنے کی نصیحت نہیں کرتے تھے۔
اس کے بر خلاف ہم اپنی موجود نسلوں کو روزہی ماضی میں گاڑے رکھنے کی بات کرتے ہیں۔ ہم اس صدی میں بھی چاند کو صرف آنکھ سے دیکھ کر رمضان، عید، بقرعید کے صحیح یا غلط ماننے پر مجبور کیے جاتے ہیں۔ علمائے دین جو جدید ترین گاڑیوں میں اور برق رفتار طیاروں میں سفر کرنا تو قبول کرتے ہیں، انہیں چاند یا کائنات کے بارے میں سائنسی حقائق تسلیم نہیں ہیں۔ وہی حقائق جن کے اصول خود عرب دنیا کے ماضی کے اہم سائنس دانوں، اور ریاضی دانوں نے پیش کیئے تھے۔ وہ غزالی کی ناقص علم والی دلیل تو تسلیم کرتے ہیں اور عوام پر مسلط کرتے ہیں ، لیکن ابنِ رشد کے عقلی دلائیل کو کفر قرار دیتے ہیں۔
ہم آج بھی خلافتِ عثمانیہ میں اپنا مستقبل تلاش کرتے ہیں، اور بے سوچے سجمھے یہ بھول جاتے ہیں کہ خلافتِ عثمانیہ ایک جابر حکومت تھی، جس نے اپنے محکوموں پر ہر ظالم اور جابر حکمراں کی طرح وہ ظلم توڑے تھے جو آج بھی امنِ عالم میں حارج ہیں، اس کو سمجھنے کے لیئے کبھی بلقان ریاستوں کے ماضی اور قریب ترین حال کوامطالعہ کرنا ضروری ہے۔ اس کی صرف ایک مثال آپ سلطنتِ عثمانیہ کے وفادار ’جانساریوں ‘ میں تلاش کریں۔ آپ پر کھلے گا کہ سلطنت کےِ حکمران کس طرح اپنے مقبوضہ علاقو ں سے کم عمر بچوں کو والدین سے چھین کر مسلمان کرتے تھے اور پھر انہیں اپنے وفادار لشکری بناتے تھے۔ کیا ہم ایسے ماضی پر اپنے حال اور مستقبل کی بنیاد رکھیں گے اور نمو کریں گے۔
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ہم اپنے تباہ کن ہتھیاروں کے نام غوری اور غزنوی کے نام پر رکھتے ہیں۔ کیا ہم ان حکمرانوں کے دہشت اور ظلم کو اپنے امن کی مثال بنانا چاہتے ہیں۔ ان تکلیف دہ معروضات کا مقصد صرف اپنے عزیزوں کو ایک کچوکہ دینا تھا ، تاکہ ہم ماضی سے نکل کر اپنے عصرِ حاضر اور مستقبل کا رخ درست سمت کر سکیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں