امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 549

آسیہ بی بی: دُکھوں کی داستاں ابھی تمام تو نہیں ہوئی

گزشتہ ہفتہ پاکستان میں میں توہینِ رسالت کی مظلوم، معصوم، اور مسکین ملزمہ آسیہ بی بی کی برّیت کا فیصلہ سامنے آیا۔ بریت کا یہ فیصلہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے ، شہاتیں نہ ہونے کی بنیاد پرمتفقہ طور پر سنایا۔ یہ الگ بات کہ آسیہ بی بی کو ایک جھوٹے الزم میں آٹھ سال سزائے موت کی کال کوٹھری میں تنہا گزارنے پڑے۔ یہ مقدمہ خود اسی سپریم کورٹ میں چار سال لٹکتا رہا۔ اس بیچ میں توہینِ رسالت کے قانون کے غلط استعمال کے خلاف بولنے پر پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر شہید کیے گئے۔ ان کے قاتل کو پھانسی ہوئی۔ اسی ضمن میں ایک اہم سیاسی رہنما شہباز بھٹی کو بھی آسیہ بی بی کی حمایت کے الزام میں قتل کیا گیا۔
اس فیصلے کے فوراً بعد پاکستان اور دنیا بھر کے حق پسندوں نے چند لمحے اطمینان کا سانس لیا۔ لیکن اس کے فوراً بعد ہی اسلام کے ایک طبقہ کے شدت پرستوں نے جنہیں سوادِ اعظم کا نمائندہ بھی کہا جاتا ہے اس فیصلے کی مخالف کردی۔ سوادِ اعظم سے مراد وہ طبقہ ہے جو پاکستان میں حنفی فقہہ سے تعلق رکھتا ہے جس سے پاکستان کے زیادہ تر عوام وابستہ ہیں۔ یہ طبقہ عام طور پر وہابی فکر کا مخالف ہے، لیکن خود اس کے ہاں بھی شدت پرستی راسخ ہے، جو تشدد تک پہنچتی ہے۔ اس گروہ کی رہنمائی وہ کرتے ہیں جن کی زبان بدترین اور جن کی تقریر گالی گلوچ سے بھری ہوتی ہے، اسی طبقہ نے نواز شریف کے دورِ حکومت میں بلوے کیئے تھے، جنہیں ختم کرنے کے لیئے بعض عسکری افسروں نے کھلم کھلا رقوم بانٹی تھیں۔ ان بلووں کے دوران موجود وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی ان کی حمایت کی تھی۔وہ خود بھی ایسے گھیراو کرتے رہے تھے۔ یہ ملک میں اپنی مذہبی تفہیم کے مطابق حکومت چاہتے ہین۔ توہینِ مذہب و رسالت کے قوانین ان کے خطرناک، ظالمانہ ، اور خونی ہتھیار ہیں۔ پاکستان میں صرف توہینِ رسالت کا الزام ہی ملزم کو مجرم بنا دیتا ہے۔ عدالتیں فیصلہ کریں یا نہ کریں ، ایسے ملزمان کے ماورائے عدالت قتل عام ہیں۔
آسیہ بی بی کے مقدمہ کا فیصلہ آتے ہی اس شدت پرست طبقہ کے رہنماﺅں نے سپریم کورٹ کے تین ججوں کے قتل کے فتوے صادر کیے اور خود ان ججوں کے ملازمین کو ان کے قتل پر اکسایا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے افواجِ پاکستان کے سربراہ کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کی اور ان کے خلاف بغاوت کے بیانات جاری کیئے کیئے۔
اس پر اول اول تو وزیرِ اعظم عمران خان نے ان بلوایﺅں کے خلاف ایک سخت تقریر کی۔ جس پر ان کے مخالفین نے بھی ان کی تعریف کی۔ لیکن وہ فوراً ہی ملک سے چلے گئے۔ بلوایﺅں کے بیانات سے گھبرا کر فوج کے نمائندہ نے بیان دے دیا کہ ان کا اس فیصلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور یہ کہ اس پر کاروائی حکومت کا کام۔ یہ بیان اس ادارے نے دیا، جس نے کبھی شہری حکومتوں کی بالا دستی تسلیم نہیں کی۔
بلوایﺅں کا مطالبہ تھا کہ مقدمہ کا فیصلہ تبدیل کیا جائے۔ آسیہ بی بی کو ملک سے باہر جانے سے روکا جائے ، وغیرہ۔ چند ہی دن میں ان ہی عمران خان کی حکومت نے جو سخت بیانا ت دے رہی تھی، بلوایﺅں سے ایک توہین آمیز معاہدہ کر لیا۔ جس میں وعدہ ہے کے بلوائیوں کو چھوڑا جائے گا۔ آسیہ بی بی کے ملک سے باہر جانے پر پابندی لگائی جائے گی۔ لیکن اس میں ججوں کے قتل پر اکسانے اور بغاوت پید ا کرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ نہ اب اعلیٰ منصف کچھ کہہ رہے ہیں نہ عسکر ی ادارے۔ وہی منصف اور وہی عسکری ادارے جو ذرا سی بھی تنقید گوارا نہیں کرتے، اور رائے نگاروں اور عمل پرستوں کے ساتھ سخت ترین رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ اب حکومت کے وزرا خود اس معاہدے پر ندامت کا اظہار کر رہے ہیں۔ عمران خان فی الوقت خاموش ہیں۔
اس صورتِ حال میں پاکستان میں انارکی اور فاشزم کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ بدقسمتی سے یہ صورتِ حال پیدا کرنے اور اس کو قائم کرنے میں موجودہ حکومت کا بڑا کردار ہے، جو اقتدار احاصل کرنے کے لیئے فاشزم کے ڈھنگ اپناتی رہی اور طاقتور خفیہ ہاتھوں کی حمایت کے ساتھ ساتھ مذہبی جنونیوں سے گٹھ جوڑ بھی کرتی رہی۔
آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کا ایک اہم جزو ، یہ ہے کہ اعلیٰ عدالت کے ججوں نے اسے قرآن اور حدیث کے حوالوں سے بھر دیاہے۔ شاید وہ مفتیوں سے بھی زیادہ مفتی ہونے، اور مذہبی امور میں مہارت کا ثبوت دینا چاہ رہے تھے۔ کیا وہ اس ضمن میں قبل از وقت اسلامی آیئڈیولوجی کونسل یا وفاقی شریعی عدالت سے دلیل نہیں لا سکتے تھے۔ کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ زمانہءاول ہی سے اسلام صرف فقہی، شریعی، اور تفہیمی اختلا ف کی وجہہ سے فرقوں اور فقہوں میں تقسیم ہے۔ اور اور ہر فقہ دوسرے فقہ کی دلیل تسلیم نہیں کرتاا ور یوں اسلام منقسم ہوتا چلا جاتا ہے۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ خود دیگر بڑے مذاہب نے مذہب اور ریاست کو اس وجہہ سے الگ الگ کر دیا کہ ہر مذہب اور ملک ان اختلافات کی وجہہ سے کشت و خون میں مبتلا ہوتا ہے، اور ریاست کا نظام تحس نحس ہو جاتا ہے۔
ہمارے منصفوں اور فاضل مدبروں میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ مذہب اور ریاست کی علیحدگی کی بات کر سکیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اعلیٰ عدالت کے فیصلوں میں مذہب کا بے دریغ استعمال مذہب کو اور بھی راسخ کردیتا ہے ، اور شدت پرستوں کو مزید شہہ دیتا ہے۔
ایک فاضل مصنف نے تو زورِ دانش میں، شیکسپیئر کا یہ حوالہ بھی دے دیا کہ آسیہ بی بی پر اس کی غلطی سے زیادہ زیادتی کی گئی۔ انہوں نے اس کا اردو نام بھی بدل کر آسیہ سے، عاصیہ لکھ دیا۔ آسیہ بی کا نام “الف “، سے شروع ہوتا ہے۔ اسلام میں حضرت آسیہ حضرت موسیٰ کی مددگار تھیں، جنہیں ایک پاک دامن خاتون جانا جاتا ہے۔۔فاضل مصنف نے اپنے فیصلے میں ”ع“ سے عاصیہ لکھ کر۔ شاید یہ دلیل دینا چاہی کہ گو آسیہ بی بی ایک گنہ گار عورت تھی لیکن اسے کے خلاف اس سے زیادہ گنہ کر دیے گئے۔
اس قسم کے مذہبی حوالوں سے بھر پور فیصلے، اور فاضل ججوں کی طرف سے الفاظ اور ناموں میں میں ردو و بدل ، آسیہ بی بی اور دیگر مظلوموں کے دکھوں کی داستان کو لا متناہی بناتے ہیں۔ اور ظلم کی رات طویل تر ہوتی چلی جاتی ہے۔
ہم لاکھ مخالفتوں کے باوجود یہی اصرار کرتے رہیں گے کہ پاکستان اور اس جیسے دیگر ممالک میں امن و ترقی صرف ریاست اور مذہب کو الگ کرکے ہی ہو سکتی ہے۔ ورنہ ہم بھی تاریک دور کے مغربی ممالک کی طرح قتل و غارت گری اور کشت و خون میں مبتلا رہےں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں