تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 424

اب کی باری میاں صاحب کی باری

ایک لطیفہ گزشتہ دنوں بہت مقبول ہوا کہ کسی جرم میں آصف زرداری، میاں نواز شریف اور الطاف حسین کو فوجی عدالت سے کوڑوں کی سزا ہوئی ان کو ایک سہولت فراہم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
جب نواز شریف سے معلوم کیا کہ آپ کو کیا سہولت فراہم کی جائے تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ مجھے ایک کوڑا مارا جائے اور میری کمر پر ایک گدا باندھا جائے۔ سزا پر اسی طرح سے عمل درآمد کیا گیا پھر الطاف بھائی کو لایا گیا انہوں نے مطالبہ کیا کہ مجھے بھی ایک کوڑا مارا جائے اور میری کمر پر دو گدے باندھے جائیں۔ ان کی سزا پر بھی اسی طرح عمل درآمد کیا پھر آصف زرداری کو لایا گیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ مجھے دس کوڑے مارے جائیں اور میری کمر پر الطاف حسین کو باندھا جائے۔
ملک کی اندرونی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ لگایا جائے تو معلوم ہو گا کہ الطاف حسین کو تو بھرپور سزا مل گئی اور ان کو موجودہ دور کی سیاست سے بے دخل کردیا گیا۔ اس ہی طرح نواز شریف کی حکومت ختم کرکے انہیں بھی بیماری اور بڑھاپے کے ساتھ دیس نکالا ملا مگر سندھ کی حکومت اور ملکی سیاست میں پیپلزپارٹی پہلے سے زیادہ طاقتور وقت کے ساتھ ساتھ طاقتور ہوتی جارہی ہے۔ جب آصف زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی تو ان کے ساتھیوں کے گرد فوج نے گھیرا تنگ کردیا۔ آصف زرداری نے فوراً فوج سے مفاہمت کرکے سندھ کی حکومت کو بچایا جس کے خلاف میاں نواز شریف کی حکومت نے ایکشن لیا ہوا تھا اور چوہدری نثار نے سندھ کے حکمرانوں کے خلاف کریک ڈاﺅن کیا ہوا تھا۔ آصف زرداری نے فوج کا ساتھ دے کر نواز حکومت کو گرانے میں ایک اہم کردار ادا کرکے اپنے خلاف حکومتی کارروائیوں کا بھرپور انداز میں جواب دیا۔ اس ہی دوران سندھ میں اپنے سب سے بڑے حریف الطاف حسین کی پارٹی کے خلاف عسکری آپریشن کی درپردہ حمایت کرکے اس کو بھی راستے سے ہٹا کر اپنی سندھ حکومت کو مزید طاقتور بنادیا۔ دوسری طرف ملکی سطح پر فوج اور میاں نواز شریف کی لڑائیوں میں بھی انہوں نے فوج کی درپردہ حمایت کرکے اپنی سندھ حکومت کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ یہ ایک طرف سندھ میں فوج کے ہر اقدام کی خفیہ حمایت کرکے اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگا رہا تھا دوسری طرف نواز شریف کو فوج سے لڑوا کر اپنے قدم پنجاب اور دوسرے صوبوں میں بھی قدم بڑھا رہا تھا اس کے لئے بلاول کو اس کی ماں بے نظیر اور نانا ذوالفقار علی بھٹو کی طرز کی سیاست کے انداز سکھا کر باقی صوبوں میں بھی ان کو متبادل کے طور پر پیش کررہے تھے۔ اور سندھ میں بہت تیزی سے اپنے مخالفین فوج کی مدد سے دیوار سے لگا رہے تھے۔ آج پیپلزپارٹی کی سندھ میں سیاست کا انداز بالکل مختلف ہے جو ایک لسانی جماعت کا ہے اور ملکی سطح پر ان کی سیاست کا انداز دوسری طرح کا ہے وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے تمام مخالفین کو پچھاڑ کر اپنی بھرپور طاقت کا استعمال کررہے ہیں ملکی سطح پر نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور ولی خان کے خاندان کے ساتھ ساتھ چھوٹی جماعتوں کو بھی آگے سے آگے کرکے اپنی پارٹی کو مضبوط سے مضبوط بنا کر بلاول کو متبادل وزیر اعظم کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ انہوں نے 1981ءکے الیکشن میں سندھ کی حکومت بھی اسی طرح حاصل کی جس طرح عمران خان نے مرکز کے ساتھ پنجاب اور کے پی کے میں فوج کی مدد سے حکومت قائم کی اب وہ صرف اپنے صوبے سندھ کے علاوہ سارے انتخاب پر اعتراض کرکے عمران خان کی حکومت گروا کر بلاول کو وزیر اعظم بنوانا چاہتے ہیں۔ ماضی میں جس طرح انہوں نے فوج کی مدد سے بلوچستان میں نواز لیگ کی حکومت گروا کر جنرل عاصم باجوہ کے ایجنڈے کو پورا کرنے میں مدد فراہم کی پھر اس کی بدولت فوج کی مدد سے سینیٹ کے الیکشن میں ساجد سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنوا کر اپنے تعلقات کو فوج سے اور بہتر بنوا کر یہ ثابت کیا کہ وہ اب عمران خان کے بعد فوج کی دوسری پسند ہیں۔ اس ہی طرح پھر انہوں نے اپنی حیثیت کو اس وقت فوج کے سامنے بہتر بنایا جب چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کروائی۔ ایک طرف وہ اقتدار میں فوج کی مدد سے قدم بہ قدم آگے سے آگے سے بڑھتے چلے جارہے ہیں دوسری طرف وہ بڑی جماعتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنی اور بلاول کی حیثیت کو طاقتور بنا رہے ہیں یوں جب جنرل باجواہ کی ایکسٹینشن کا بل اسمبلی سے منظور ہوا اس وقت بھی پیپلزپارٹی نے درپردہ فوج کی حمایت کرکے جنرل باجوہ کی حمایت حاصل کرلی پھر اب منی لانڈرنگ اور فیٹف کے بل جوائنٹ سیشن سے منظور کروا کر ایک طرح سے فوج سے اپنی ڈیل کنفرم کرلی۔ اب وہ میاں نواز شریف کے برعکس فوج کی مخالفت کے بجائے صرف عمران خان کی مخالفت کرکے جمہوریت کو مضبوط کرنے کے بجائے فوج کے جنرلوں کی حمایت کرکے انہیں قوت فراہم کررہے ہیں اس سارے معاملے سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ملک میں فوج کے پلان بی پر پیپلزپارٹی اور آصف زرداری بڑی کامیابی سے عمل پیرا ہیں اس طرح وہ سندھ کے ساتھ ساتھ عمران خان کی جگہ مرکز میں بھی بلاول کو فوج کی حمایت سے وزیر اعظم بنوانے میں کامیابی حاصل کررہے ہیں۔ جس طرح اے پی سی سے پہلے بلاول کے ساتھ شہباز شریف کی فوج سے خفیہ ملاقات کا حوال سامنے آیا ہے اور اے پی سی میں میاں نواز شریف کی فوج کو للکارنے ایک طرف فوج کے جنرلوں کو نواز لیگ کو آمنے سامنے لا کر کھڑا کردیا ہے اس سے فوج کو اگر نواز شریف کی وجہ سے نقصان پہنچا تو اس کا سہرا پیپلزپارٹی کو حاصل ہو گا اور اس ہی طرح نواز شریف فوج کا نشانہ بننے میں بھی فائدہ پیپلزپارٹی کا ہی ہے۔
ماضی میں جس طرح جب الطاف حسین فوج کے خلاف کھڑے ہوئے اور فوج نے ان کو سیاست سے بے دخل کیا اس کا سراسر فائدہ پیپلزپارٹی نے اٹھایا اور سندھ میں بلا شرکت غیرے ان کو اقتدار کے مزے اڑانے کے بھرپور انداز سے کھل کر کھیلنے کے موقع حاصل ہو گیا۔ آج سندھ کے ہر شعبہ میں ان کے حامی جو کہ ان ہی ہم زبان ہیں چھائے ہوئے ہیں۔ اور الطاف حسین اور ان کے ساتھ دیوار سے لگا دیئے گئے ہیں اور عتاب کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ اس ہی طرح نواز شریف اور فوج کے درمیان محاذ آرائی کا بھی فائدہ بھی پیپلزپارٹی کو حاصل ہو رہا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ میاں نواز شریف سویلین بالادستی کے لئے جو جدوجہد کررہے ہیں وہ اصولی طور پر درست تقاضا ہے جو کہ کسی بھی جمہوری معاشرے کا اہم جز ہے تمام قوم کو نواز شریف کے سویلین بالادستی کے مطالبہ کی حمایت کرنا لازمی ہے۔ نواز شریف نے اس بڑھاپے اور بیماری میں جو دلیرانہ قدم اٹھایا ہے اس کی کامیابی کے لئے تمام جمہوریت پسند دعاگو ہیں لیکن محسوس یہ ہی ہو رہا ہے کہ الطاف حسین کے بعد میاں نواز شریف بھی فوج کا ہدف بن جائیں گے جو کہ ملک اور ریاست کے لئے کسی بھی طرح سودمند نہیں ہے اور یوں محسوس ہو رہا ہے کہ الطاف حسین کے بعد اب کی باری میاں صاحب کی باری۔ یہ ہی آصف علی زرداری کا دیرینہ مقصد ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں