بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 362

اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی وجوہات

عرصہ دراز سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے سلسلہ میں بحث و مباحثہ کیا جارہا ہے۔ گزشتہ دنوں بھی پاکستان میں یہ معاملہ حکومت اور عوامی سطح پر زیربحث رہا کہ اس معاملہ میں کیا قباحت ہے کہ اگر اسرائیل کو تسلیم کرلیا جائے؟ ہمیں دیکھنا ہو گا اور کچھ ریسرچ کرنا ہو گی کہ آیا کہ اسرائیلی قوم کے عزائم کیا ہیں۔ ہمیں جاننا ہو گا کہ ”فری میسن“ یا ”زائنسٹ“ سے کیا مراد ہے۔ اگر ہم اسرائیل کا قومی ترانہ جو کہ ہیبرو زبان میں ہے کا اردوترجمہ کریں تو اندازہ ہو گا کہ ان کے عزائم کیا ہیں اور آنے والے وقتوں میں کس طرح اپنے عزائم کو پورا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہاں اسرائیلی قومی ترانہ کا اردو ترجمہ تحریر کررہا ہوں جو ہم سب کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہوگا۔
جب تک دل میں یہودی روح ہے
یہ تمنا کے ساتھ مشرق کی طرف بڑھنا ہے
ہماری امیدیں ابھی پوری نہیں ہوئی
اپنی زمین پر ایک ہزار سال کا خواب
اپنے خوابوں کی دنیا یروشلم
ہمارے دشمن یہ سن کے ٹھٹھر جائیں
مصر اور کنعان کے سب لوگ‘ لڑکھڑا جائیں
بیبولون (بغداد) کے لوگ ٹھٹھر جائیں
ان کے آسمانوں پر ہمارا خوف اور دہشت چھائی رہے
جب ہم اپنے نیزے ان کی چھاتیوں میں گاڑ دیں گے
اور ہم ان کا خون بہتے ہوئے اور ان کے سر کٹے ہوئے دیکھیں
تب ہم اللہ کے پسندیدہ بندے ہوں گے جو چاہتا ہے
عرب حکومتیں اس قومی عزم، دہشت گردی کے ارادے، خون خرابے اور ان کے حلف کے باوجود اسرائیل کو تسلیم اور اس کے قومی ترانے پر احتراماً کھڑے ہو کر سر جھکاتے رہیں۔ اس بے شرمی اور اس بے غیرتی کا کیا کریں؟
اندازہ کیجئے جس کا قومی ترانہ دہشت گردی کی جیتی جاگتی مثال ہو اور جو معصوم لوگوں کا خون بہانا اللہ کی رضا اور خوشنودی سے تعبیر کرے اس کا کیا کیا جائے۔ یہودیوں کا یہ ایک ترانہ ہی مسلمانوں کو یہ باور کرانے کے لئے کافی ہیں کہ یہودی کس حد تک ان سے یا ہمارے پیارے نبی کے امتیوں سے نفرت کرتے ہیں اور نفرت صرف مسلمانوں سے ہی نہیں ہے آج غزہ کے عیسائی بھی ان کے تشدد کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ ہمیں اللہ سے پناہ مانگنی چاہئے اور اپنے ذاتی اختلافات کو بھلا کر اور متحد ہو کر سینہ سپر ہو جانا چاہئے۔ اسی میں ہماری بقا پوشیدہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں