تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 326

اسٹیٹس کو

قائد اعظم کے معالج کرنل الٰہی بخش نے تحریر کیا کہ زیارت ریزیڈنسی میں قائد اعظم کے آخیر ایام میں جب بھی کوئی رہنما ان کی عیادت کے لئے تشریف لاتے تو ان کے جانے کے بعد قائد اعظم فرماتے کہ ”میری عیادت کے لئے نہیں آتے بلکہ یہ دیکھنے آتے ہیں کہ کب میں مروں گا“۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کچھ عناصر اس انتظار میں تھے کہ جیسے ہی قائد اعظم دنیا سے پردہ کریں تو وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کریں کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ ان کے مقاصد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ صرف قائد اعظم ہی ہو سکتے ہیں۔ وہ یہ جانتے تھے کہ قائد اعظم کے بعد کی قیادت کو وہ با آسانی راستے سے ہٹا سکتے ہیں۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بعد میں ایسا ہی ہوا۔
موجودہ دور میں جو حالات ہیں اور جیسا ہمارے ملک کا نظام ہے۔ اس نظام کو اس طرح بنانے کا مقصد یہ ہی تھا کہ اس ملک کو ایسا بنا دیں جس میں یہ عناصر اپنے مقاصد کو پورا کرسکیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہر دور میں اس طرح کے مقاصد رکھنے والے کامیابی سے ایسا نظام تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے کہ نواز شریف ہوں یا آصف زرداری یا پرویز مشرف سمیت ہر حکمران کو انہوں نے استعمال کیا۔ چاہے حکمران کا کا تعلق سویلین سے ہو یا فوج سے ہر حکمران ان کے زبردست دباﺅ میں رہا کیونکہ ان کا تعلق قیام پاکستان سے پہلے ان طبقات سے تھا جنہوں نے اپنے مفادات کی خاطر پاکستان کی زبردست مخالفت کی مگر قائد اعظم اور علامہ اقبال نے ان کو کسی طور پر بھی کامیاب نہیں ہونے دیا۔ ان کا تعلق ان جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں سے تھا جنہوں نے پاکستان بنانے کی تحریک کی ہر انداز میں مخالفت کی کیونکہ پنجاب میں ان کی گرفت مضبوط تھی اس لئے انہوں نے پنجاب میں یونسنٹوں کی حکومت کی حمایت کی اور یہ ہی طریقہ انہوں نے آنے والے دور میں ان حکمرانوں کے ساتھ اختیار کیا جو ان کے مقاصد کی تکمیل کے لئے سود مند ہوں۔
قائد اعظم کے بعد لیاقت علی خان کو بزور طاقت راہ سے ہٹا دیا گیا پھر ایسے وزیر اعظم کا مذاق اڑایا جو اپنے کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیا کرتے تھے یعنی خواجہ ناظم الدین کی سادگی کہ وہ اپنے کپڑے خود دھوتے تھے یا لیاقت علی خان کی شہادت پر ان کے پھٹے ہوئے بنیان اور موزوں کے بارے میں مذاق اڑایا اور پھر پنڈٹ جواہر لال نہرو کے اس جملے کو نمایاں کرنا کہ میں اس تیزی سے اپنی دھوتی نہیں بدلتا جتنا تیزی سے پاکستان میں حکومتیں بدلتی ہیں۔ آنے والے دور میں حکومتیں تو بدلتی رہیں لیکن یہ قوتیں نہیں بدلیں، یہ ہر اس حکمران کے ساتھ شامل ہو جاتی جو ان کے مقاصد میں معاون و مددگار ثابت ہوتا۔ اس طرح یہ وقت کے ساتھ ساتھ طاقتور ہوتے چلے گئے اور پاکستان اور اس کے عوام کمزور سے کمزور ہوتے چلے گئے۔ ان کو اس بات کا ذرا خیال نہیں تھا کہ پاکستان ٹوٹ گیا تو کیا نقصان ہوگا کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ انہوں نے اپنی نسلوں کے لئے ایسا انتظام کرلیا ہے کہ پاکستان ختم بھی ہو جائے تو ان کو کچھ فرق نہیں پڑے گا انہوں نے کیونکر ایسا انتظام کردیا کہ ان کے اثاثہ ان محفوظ جگہوں میں ہیں کہ جب بھی ان کو ضرورت ہو گی وہ با آسانی اپنا معیار زندگی اس ہی انداز کا بنا سکیں گے جیسا وہ چاہتے ہیں اس طرح جب ایوب خان کی فوجی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے اس کی بھرپور سپورٹ کی کیونکہ وہ فوجی اقتدار ان کے ”اسٹیٹس کو“ کو دوام بخشنے کا باعث ہوا اور وقت نے یہ ہی ثابت کیا کہ انہوں نے جو راستہ اختیار کیا اس میں ان کا ”اسٹیٹس کو“ وقت کے ساتھ ساتھ طاقتور ہوتا چلا گیا اور پاکستان کمزور سے کمزور۔ اب نوبت یہ ہو گئی ہے کہ یہ اپنا ”اسٹیٹس کو“ کسی صورت سے ختم کرنے کو تیار نہیں چاہے اس کے بدلے پاکستان ختم ہو جائے۔
انہوں نے اپنے نظام کی گرفت اس طرح سے قائم رکھی کہ اپنے اپنے گھرانے کا ایک ایک فرد نوکر شاہی یعنی بیوروکریسی میں دوسرا فوج میں تیسرا سیاست میں یا کوئی بزنس مین، کوئی جاگیردار، کوئی وڈیرا۔ انہوں نے اپنا اسٹیٹس کو اس قدر طاقتور بنا لیا کہ کوئی بھی ان کو زک نہ پہنچا سکے اگر ان کے سامنے کوئی حکمراں آیا تو انہوں نے اس حکمراں کو راستے سے ہٹا دیا۔ کوئی سیاست دان آیا تو وہ پھانسی پر چڑھا دیا گیا، کسی کو ملک بدر کروادیا گیا، کسی کو ملک کے اندر ہی دربدر کروا دیا۔ ایوب خان کے مقابلہ کے لئے جب محترمہ فاطمہ جناح آئیں اور ان کے گرد تمام محب وطن قوتیں جمع ہو گئیں تو نہ صرف ان کو اقتدار سے محروم رکھا بلکہ بعد میں ان کو راستے سے ہٹا دیا پھر جب بھٹو اور مجیب یا ولی خان نے ان کا مقابلہ کرنا چاہا تو ان کو یا تو موت کے گھاٹ اتار دیا یا جیل کی کال کوٹھری میں۔ ان تمام قوتوں نے مل کر اقتدار ضیاءالحق کے حوالے کروادیا۔ جس نے نہ صرف نظام سیاست کی اینٹ سے اینٹ بجا دی بلکہ پاکستان کا تمام سماجی ڈھانچہ بھی زمین بوس کردیا۔ ان قوتوں نے اپنے ساتھ ساتھ ضیاءکے نظام کو طاقتور بنا دیا، نوبت یہاں تک پہنچی کہ ضیاءکے آگے کسی قوت نے مزاحمت کی جرات تک نہ کی پھر جب سیاست دانوں کو حکومت ملی تو ان کو اس قدر کمزور رکھا گیا کہ اس اسٹیٹس کو کے بارے میں وہ کوئی معمولی سا قدم بھی اٹھا نہ سکیں۔ اس ہی طرح جب پرویز مشرف نے اقتدار حاصل کیا تو ان کو بھی ان ہی قوتوں سے سہارا لینا پڑا پھر جب اقتدار پیپلزپارٹی کے حوالے کیا گیا اس میں بھی وہ تمام چہرے تھے جو مشرف کے ساتھ تھے، حد تو یہ ہے کہ یہ لوگ مشرف کے سب سے بڑے مخالف نواز شریف کے ساتھ بھی کھڑے نظر آئے۔ اس طرح ملک میں اٹھانوے فیصد لوگ جن کا جو تعلق پنجاب سے تھا یا سندھ سے بلوچستان سے تھا یا پختون خوا سے وہ غربت کی لکیر کے نیچے اپنی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ ملک خطرات کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے مگر یہ قوتیں اپنے اس اسٹیٹس کو کو ختم کرنے کے لئے تیار نہیں انہوں نے ٹھانی ہوئی ہے کہ وہ اپنی گرفت کسی بھی طرح ڈھیلی نہیں کریں گے چاہے ملک کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں جیسا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے موقع پر ہوا۔ بجائے وہ بنگالیوں کے جائز مطالبات کو قبول کرتے انہوں نے ان پر جبر مسلط کردیا اس طرح پاکستان دولخت ہوگیا اب یہ ہی قوتیں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے ایسے حالات پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئیں کہ ملک کے تین صوبوں میں فوج کے ذریعہ آپریشن کرنا پڑا مگر یہ اپنے اسٹیٹس کو کو بدلنے کو تیار نہیں۔
آج صورت حال یہ ہے کہ سیاست داں فوج کو اس کا ذمہ دار سمجھ رہے ہیں اور فوج ان سیاست دانوں کو اس تباہی کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے مگر اصل دشمن سب کی آنکھوں سے اوجھل ہے اپنے مقاصد درپردہ بڑی خوش اصلوبی سے پورے کررہے ہیں۔ نہ فوجی حکمراں ان کو بدل سکتا ہے نہ سویلین میں ان کو بدلنے کی جرات ہے، سب جانتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ملک کتنے خطرات میں گھر گیا ہے، عوام کی حالت دن بدن بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے، ملک دشمن ان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں مگر یہ ہیں کہ اپنا رویہ بدلنے کو تیار نہیں۔ ملک جس طرح کے خطرات میں گھرا ہوا ہے جب تک ان کے رویہ تبدیلی نہیں آتی یہ خطرات بدستور موجود رہیں گے۔ اب یا تو یہ اسٹیٹس کو قائم رہے گا یا یہ ملک۔ ہماری دعا یہ ہی ہے کہ یہ ملک ہمیشہ قائم رہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں