امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 760

اصل توہین رسالت

اس بار پھر اوائلِ محرم میں ہمیں حضور اکرم کی بیان کردہ کئی حدیثیں یاد آرہی ہیں۔ جو حدیثیں یہاں پیش ہیں وہِ امام حنبل کی کتاب فضائلِ صحابہ سے لی گئی ہیں۔یہ نسخہ پاکستان میں ب±ک کارنر نے شائع کیا ہے۔ یہی اور دیگر حدیثیں ان کتبِ حدیث میں بھی ہیں جنہیں س±نّی مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمان صحیح کتابیں سمجھتے ہیں۔ خود امام احمد بن حنبلؓ س±نّی فقہہ کے ہم امام سمجھے جاتے ہین جن کی تفاسیر اور تفاہیم دیگر کے مقابلہ میں محتاط اور جدت کے خلاف سمجھی جاتی ہیں۔ مسلمانوں کے وہابی فرقہ سے تعلق رکھنے والے عام طور پر امام حنبل کاطریق اختیار کرتے ہیں۔
یہ حدیثیں شہیدِ حق اور شہیدِ کربلا حضرت امام حسین سے حضورِ اکرم کی محبت اور ان کے درجہ کے بارے میں ہیں:
۔۔۔روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول نے امام حسینؓ کو بوسہ دیا اور ان کو سونگھنے لگے، وہاں ایک انصاری بھی موجود تھے، انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ میرا بھی ایک بالغ بیٹا ہے، لیکن میں نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ حضور نے فرمایا، میرا کیا قصور ہے اگر اللہ نے تمہار دل کو رحمت اور شفقت سے خالی کر دیا ہے۔
۔۔۔رسول اللہ نے فرمایا کہ جو حسنؓ اور حسینؓ سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے، اور جو ان سے بغض رکھتا ہے وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے۔
۔۔۔حضور نے فرمایا کہ حسنؓ اور حسینؓ جنتّی نوجوانوں کے سردار ہیں۔ اور مریم بنتِ عمران کے علاوہ فاطمہؓ تمام جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔
۔۔۔ایک اور روایت کے مطابق رسول اللہ کسی کے ساتھ کھانے پر جا رہے تھے، انہوں نے راستے میں حضرت حسینؓ اور حسینؓ کو کھیلتے دیکھا۔ رسول االلہ نے انہیں پکڑنا چاہا تو وہ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ رسول اللہ نے انہیں ہنستے ہنساتے پکڑلیا اور اپنا مبارک منہ ان کے منہ پر رکھا اور بوسہ دیا۔ پھر فرمایا ، حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں۔ اے اللہ اس شخص سے محبت کر جو ان سے محبت کرتا ہے۔ اور حسینؓ ہماری اولاد میں سے ایک ہے۔
۔۔۔سید ہ ا±مِّ سلمہ سے روایت ہے کہ میں نے جنوں کو س±نا ہے کہ وہ حضرت حسینؓ پر رو رہے تھے۔
۔۔۔ایک بار حضرت حسینؓ مسجد میں داخل ہوئے تو حضرت جابر بن عبداللہؓ نے فرمایا کہ جو جنتی نوجوانوں کے سر دار کو دیکھنا پسند کرے وہ انہیں دیکھ لے۔ میں رسول اللہ سے اسی طرح س±نا ہے۔
۔۔۔ایک صحابیؓ سے روایت ہے کہ ایک بار حضور نبی کریم، حضرت حسنؓ اور حسینؓ کو لے کر ہمارے پاس آئے اور دونوں کو اپنے ایک ایک کندھے پر سوار کیا اور کبھی ایک کو بوسہ دیتے تھے کبھی دوسرے کو۔ پھر ہمارے پاس رک گئے۔ ایک آدمی نے سوال کیا یا رسول اللہ آپ کو ان سے محبت ہے۔ آپ نے فرمایا جو ان دونوں سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے، جو ان سے بغض رکھتا ہے وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے۔
۔۔۔سیدہ ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کے پاس سیدنا جبریلؑ تشریف لائے۔ سیدنا حسینؓ میرے پاس رو رہے تھے، میں نے چھوڑ دیا تو وہ حضور کے پاس چلے گئے۔ سیدنا جبریلؑ نے ان سے پوچھا اے محمد آپ ان سے محبت کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ سیدنا جبریلؑ نے کہا کہ آپ کی امت انہیں قتل کرے گی۔ اگر آپ چاہیں تو میں وہ مٹی بھی دکھا سکتا ہوں جہاں انہیں قتل کیا جائے گا۔ پھر رسول کو انہوں نے وہ زمین دکھائی جسے کربلا کہا جاتا ہے۔
۔۔۔ حضرت امِ سلمہ سے روایت ہے کہ، ایک دفعہ سیدہ فاطمہؓ اپنے دونوں بچوں کے ساتھ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ آپ نے سیدہ فاطمہؓ سے فرمایا کہ آپ کے چچا زاد کہاں ہیں، انہوں نے کہا کہ وہ گھر میں ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ انہیں بھی لاﺅ۔جب وہ آگئے تو آپ نے دونوں بچوں کو گود میں بٹھایا اور حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ ان کے دائیں بائیں بیٹھ گے۔ سیدہ ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ پھر آپ نے ایک خیبر چادر کھینچی اور سب کو اس میں لپیٹ لیا۔ اور پھر دعا کی کہ یا اللہ یہ میرے اہلِ بیت ہیں ان سے نجاست دور فرما اور انہیں خوب پاک کر۔ یہ بات تین دفعہ دہرائی۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ کیا میں آپ کے اہل میں سے نہیں ہوں؟ آپ نے فرمایا ہاں پھر مجھے بھی چادر میں کھینچ لیا۔ اس کے بعد آپ کی اپنے چچا زاد، اپنے بچوں، اور حضرت فاطمہؓ کے بارے میں دعاختم ہوئی۔اس وقت جو آیت آپ نے تلاوت فرمائی وہ یہ تھی:” انما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس اہلِ بیت وہ یطہرکم تطہیرا“۔ ( سورہ احزاب۔ اآیت تینتیس)
۔۔۔ سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ میں ابنِ زیاد کے پاس تھاکہ اتنے میں حضرت حسینؓ کا سرِ مبارک لایا گیا۔ وہ ان کے دانت پر چھڑی مار رہا تھا۔ اور کہہ رہا تھا کہ میں نے انؓ سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا۔ میں نے کہا یہ رسول اللہ کے سب سے زیادہ ہم شکل تھے۔
اب آپ مندرجہ بالا احادیث اور حوالوں پر غور کریں اور سوچیں کہ جب ایک فاسق و فاجر نے حضرت حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کو کربلا میں شہید کیا اور پھر مدینہ تاراج کیا تو کیا اس نے اولین توہین ِ رسالت کا عمل نہیں کیا۔ یہی وہ قتل و غارت گری تھی جس کی لعنت نے آج تک امتِ مسلمہ کو آسیب کی طرح گھیر رکھا ہے۔ ہم اور آپ ہر روز توہینِ رسالت کا نعرہ بلند ہوتے سنتے دیکھتے ہیں۔ آئند ہ جب ایسا سنیںتو یہ ضرور یاد کرلیں کہ شہادتِ حسینؓ سے بڑی توہینِ رسالت آج تک نہیں ہوئی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں