امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 281

امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی

گزشتہ کئی ہفتوں سے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا، اور طالبان کی آمد ،کے بعد بھانت بھانت کی باتیں ہو رہی ہیں۔ خوش فہم پاکستانی اس انخلا اور اس آمد پر جشن بھی بنارہے ہیں ، اور پنواڑی کی دکان پر لن ترانیوں کی طرح سوشل میڈیا پر زور شور سے۔ دنیا کی اب بھی واحد بڑی طاقت امریکہ کی شکست فاش اور اس کے زوال کی باتیں کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ چند اور گروہ ہیں جو طالبان کی معذرت خوانی اور ترجمانی کر رہے ہیں۔ ان کے سربراہ اور ہمدردِ طالبان، وزیرِ اعظم پاکستان، عمران خا ن ہیں۔
ہماری درخواست ہے کہ یہ تحریر عالمی تناظر میں امریکہ کے کردار پر، حقیقی غور اور سوچ بچار کے طور پر پڑھی جائے تاکہ کچھ کج فہمیوں کا ازالہ ہو سکے۔ سب سے پہلے تو یہ جان لینا چاہیے کہ امریکہ دنیا کا سب سے بڑا سرمایہ دار ملک، اور ایک اہم جمہوری ملک ہے۔ وہاں سرمایہ داری، اور جمہوی نظام کی عمر اور دورانیہ تقریباً ایک ہے، اور تسلسل سے جاری ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سرمایہ داری کے فروغ کو جن آزادیوں کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ صرف جمہوری نظام ہی فراہم کرتے ہیں۔ امریکی طاقت کا منبع وہاں سرمایہ داری اور جمہوریت کا جڑواں سمبندھ ہے۔
مغربی معاشیات کا ہر طالبِ علم خوب جانتا ہے کہ جو آزادیا ں سرمایہ داری طلب کرتی ہے وہ Laisse Faire کی اصطلاح میں پنہاں ہیں۔ اس کے بنیادی معنی یہ ہیں کہ سب کچھ کرنے کی بغیر کسی روک ٹوک کے اجازت دی جائے۔ سرمایہ دارانہ معیشت میں اس کا مطلب یہ ہے کہ صنعت کار، اور کاروباری، کسی بھی حکومتی قدغن کے بغیر اپنا کاروبا ر چلا سکیں۔ یہ بھی حقیت ہے کہ معاشروں میں انصاف قائم کرنے اور کاروباریوں کی بے راہ روی سے بچنے کے لیئے جمہوری قانون سازی کی جاتی ہے۔ جس میں بحیثیت شہری، سرمایہ دار یا ان کے نمائندے شامل ہوتے ہیں ، تاکہ ان کے مفادات پرکم سے کم قدغن لگائی جاسکے۔ اس کو بخوبی سمجھنے کے لیئے متعین مدت میں امریکی اور مغربی جمہوری انتخابات میں معاشی پالیسیو ں پر مباحث پر غور کی ضرورت ہے۔
مکن ہے کہ بعض قاری ہمارے سامنے چین او ر روس جیسے آمرانہ ممالک کی مثال دیں۔ سو ، خیال رہے کہ آمرانہ ممالک ایک عرصہ تک کچھ معاملات میں کامیا ب ہوتے ہیں۔ جن میں فوجی طاقت ، کچھ صنعتی ترقی، اور کچھ سائینسی ترقی ممکن ہوپاتی ہے۔ لیکن ان کے مال کو عالمی منڈی میں وہ رسائی نہیں مل سکتی جو ان کی معیشتوں کو دیر پا طور پر قائم رکھ سکے۔ وہ اپنے مال کی رسائل کے لیئے صرف اپنے ہی حلیفوںتک محدود رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اب سے تقریباً تیس سال پہلے سرد جنگ میں روس کی شکست کے بعد ، اور چین میں چیئر ماﺅ کے بعد وہان کمیونسٹ نظام کی سختیوں کو کچھ نرم کیا گیا۔ عوام کے وسائل پر حکومتی کنٹرول کم کیا گیا، اور انہیں کمیونسٹ پارٹی کے سابق یہ حالیہ عہدیداروں کو سری یا علانیہ طور پر بخشا گیا۔ جس کے نتیجہ میں بالخصوص چین کو بڑی معاشی کامیابی حاصل ہوئی۔ لیکن ان کے عوام کی اجرت دنیا بھر میں کم ترین ہی رہی۔ کسی بھی سرمایہ دار کی طرح سابقہ اور حالیہ کمیونسٹ عہدیدار اپنے ماجور کی محنت پرارب پتی بننے لگے۔ لیکن چونکہ اس بے راہ روی پر جمہو ری قدغنیں نہ ہونے پرکاروباری نظام حد سے گزرنے لگا ، اب اس پر سختیاں قائم کی جارہی ہیں۔
ہم نے امریکہ کی طاقت کو سمجھنے کے لیئے وہاں سرمایہ داری اور جمہوریت کے چولی دامن کے ساتھ کی بات کی تھی۔ یہاں یہ بھی سمجھنا چاہیئے کے امریکی معیشت کا کونسا جزو دنیا بھر میں اس کی سرمایہ داری کو، اور دنیا میں اس کی طاقت کولازمی تحفظ دیتا ہے۔ اس جزو کو امریکہ میں اور دنیا میںMilitary Industrial Complex کہا جاتا ہے۔ امریکہ میں دفاعی اخراجات پر خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ سنہ 2020 میں امریکہ نے دفاع پر سات سو اسی ارب ڈالر خرچ کیئے۔ اس کے مقابلہ میں چین نے صرف دو سو پچاس ارب ڈالر خرچ کیئے تھے۔ یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ چین سمیت دفاعی اخراجات پر خرچ کرنے والے دیگر بڑے ممالک جن میں، روس ، بھارت، جاپان، فرانس ، آسڑیلیا، سعودی عرب، برطانیہ ، جنوبی کوریا، اٹلی، شامل ہیں ، سب مل کر بھی مجموعی طور پر امریکہ سے کم رقم خرچ کرتے ہیں۔ اس سے آپ کو اقوامِ عالم میں امریکی اثر رسوخ کا اندازہو سکے گا۔
مندرجہ بالا نکات کو کچھ کچھ سمجھنے کے بعد یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا امریکہ افغانستا ن سے ذلت آمیز شکست کھا کر نکلا ہے یا بات کچھ اور ہے۔ اس سے پہلے یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ امریکہ وقتاً فوقتاً یا بارہا دنیا کے مختلف ممال میں دخل اندازی کیوں کرتا ہے۔ اس کاجواب بہت آسان ہے، اگر ہم اس بات کا اعادہ کریں کہ امریکہ دنیا کا سب سے بڑا سرمایہ دار ملک ہے۔ اس کے سرمایہ دارانہ مفادات کو ، جس میں اس کے حلیفوں اور اتحادیو ں کے مفادات بھی شامل ہیں ، جب بھی کوئی خطرہ پیش آئے گا ، یا ضرب لگے گی، یہ وہاں جارحانہ یا مدافعانہ دخل اندازی کرے گا۔ بنیے کے بیٹے کی طرح اگر یہ کبھی گرے گا بھی تو اپنا تزویری فائدہ دیکھ کر گرے گا۔ اگر جنگ میں کودنا پڑے تو یہ اپنی دفاعی صنعت کے فائدے کے لییے نئے ہتھیار وں کے تجرے کرے گا۔ جو بعد میں نہ صرف اس کے حلیف بلکہ مخالف بھی خریدنا چاہیں گے۔سو چٹ اور پٹ اس کی رہے گی۔
افغانستان سے نکلنا طے تھا۔ گو آخر میں اس مین افراتفری ہوئی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے امریکی اور عالمی رائے پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ دنیا بھر کے ممالک اب بھی اس کے ساتھ ہیں۔ امریکہ کو برا بھلا کہنے والے کئی ملک جس میں پاکستان بھی شامل ہیں، امریکی امداد اور قرضوں کے محتاج ہیں۔ پاکستا ن پر افغان جنگ کے خاتمہ کا مالی اثر شروع ہوگیا۔ اس کے حکمرانوں نے گزشتہ بیس سال میں کرائے کا سپاہی بن کر اربوں ڈالر حاصل کیے، اور اب اس فکر میں مبتلا ہیں کہ اب یہ کہاں سے آئیںگے۔ یہ اب بھی چاہیں گے امریکہ کسی نہ کسی صورت وہاں ملوث رہے۔
سو تلخ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اب بھی سب سے بڑی عالمی قوت ہے۔ اس کے حلیف اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس کی اپنی رائے عامہ اس کے ساتھ ہے۔ جس کے ہر فرد کے مالی مفادات امریکی سرمایہ داری کی بقا سے متصل ہیں۔ عمران خان یا ان کے بغل بچے اور دیگر پاکستانی خوش فہم لاکھ غو غا بلند کریں، امریکہ وہیں کھڑا ہے۔ کﺅو ں کے کوسوں سے ڈھور نہیں مرتے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں