Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 382

اپنا گھر

اپنے ملک میں ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اپنا ایک ذاتی گھر ہو اور پھر بچّوں کا بھی خیال آتا ہے کہ جب یہ بڑے ہوں گے تو اس وقت تک اپنا گھر ہوجانا چاہئے اور ہم اپنے اس گھر کے خواب کو پورا کرنے کے لئے دن رات محنت کرتے ہیں اور ایک دن گھر بنانے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے گھر میں ضرورت کی اور سہولت کی ہر چیز موجود ہو۔گھر والوں سے کہتے ہیں کہ گھر کو صاف ستھرا رکھیں اور خود بھی اس کا بہت خیال رکھتے ہیں۔باہر لان میں پودوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور گھر کے سامنے بھی خاص صفائی کا خیال رکھا جاتا ہے اگر کوئی شخص گھر کے سامنے کوڑا کرکٹ پھینک دے تو لڑنے مرنے پر اتر آتے ہیں۔ لیکن یہ گھر جو ہم اپنے ملک میں بنارہے ہیں تو کیا کبھی ہم نے اس ملک کو بھی اپنا گھر سمجھا ہے۔یہ ملک بھی ہمارے گھر جیسا ہی ہوتا ہے لیکن ہم کبھی اس ملک کو اپنا گھر نہیں سمجھتے یہی وجہ ہے کہ زرا زرا سی بات پر احتجا جا” ہم توڑ پھوڑ پر اتر آتے ہیں بلا سوچے سمجھے کہ غیر ارادی طور پر ہم اپنے ہی گھر میں توڑ پھوڑ کررہے ہیں اور اس کے خراب نتائج کا اثر براہ راست ہماری ہی زندگی پر ہوگا ۔کیونکہ ملک میں جو بھی نقصان ہوتا ہے اس کا بوجھ عوام کے اوپر ہی آتا ہے۔سیاست دان یا حکمران اپنی جیب سے نہیں دیتے ہیں۔جگہ جگہ کوڑا کرکٹ پھلوں کے چھلکے بے پرواہی سے اچھالتے ہوئے ہمیں زرا بھی خیال نہیں آتا کہ ہم اپنے ہی گھر کو گندہ کررہے ہیں۔اور بچّوں کی تربیت بھی اسی ماحول میں ہورہی ہے اپنے ہی کئے دھرے کا الزام بھی بڑی آسانی سے محکموں پر ڈال دیتے ہیں ہر طرح کی بدعنوانی اور چوری کرکے عدل و انصاف کو برا کہتے ہیں۔ہم پرانے زمانے کے کچھ عادل حکمرانوں کی بھی مثال دیتے ہیں ۔ان کے عدل و انصاف کا زکر کرتے ہیں بلاشبہ ایسے حکمران گزرے ہیں اور ان میں پہلا نمبر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہے کہ جنہوں نے انصاف کی ایک مثال رہتی دنیا تک قائم کردی۔ بعد میں دوسرے حکمران منصفوں کا بھی نام آتا ہے جنہوں نے معاشرے میں انصاف کو فروغ دیا۔لیکن یہ مثالیں دینے سے پہلے ہم اپنے اوپر نظر ڈالیں کیا ہم ان ادوار کے لوگوں جیسے ہیں۔پہلے ہم ان جیسے عوام تو بن کر دکھائیں اس کے بعد حکمرانوں کی بھی مثالیں دیں۔ان لوگوں میں اور آج کے دور کے عوام میں زمین آسمان کا فرق ہے ہم ان کے رتّی برابر بھی نہیں ہیں مانا کے ہمیں قیادت صحیح نہیں ملی لیکن کیا ہمیں کبھی کسی نے عبادت کرنے سے روکا کسی نے ہمیں حلال کھانے سے روکا اپنے کردار اور اخلاق کو صحیح قائم رکھنے میں کسی نے رکاوٹ ڈالی۔معاشرے میں امن اور انصاف دو صورتوں میں ممکن ہے حکومت اور اداروں کی طرف سے قانون اور اس پر عمل در آمد اتنا سخت ہو کوئی بھی شخص اس سے نکل نا سکے۔ترقّی بھی اسی صورت ہو سکتی ہے۔لوگ یوروپ او ر امریکہ کے لوگوں کی مثالیں دیتے ہیں۔قانون پر عمل کرنے والے اور نظم و ضبط کے پابند لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے یہ سخت قانون ہی ہے جو ان کو ڈرائے رکھتا ہے ورنہ جہاں موقع ملتا ہے قانون شکنی سے بعض نہیں آتے۔اسی وجہ سے جرائم کی شرح محتلف ریاستوں میں مختلف ہے جن ریاستوں میں قانون بہت سخت اور سزا بھی سخت ہے وہاں جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے اور جہاں قانون میں نرمی ہے لچک ہے وہاں جرائم زیادہ ہیں۔اس کی مثال یہ ہے کہ ریاست ورجینیا میں تیز رفتاری پر جرمانہ اور جیل کی سزا زیادہ ہے اور وہاں تیز رفتاری پر پولیس کبھی بھی رعائیت نہیں برتتی اس حوالے سے ورجینیا بہت مغہور ہے اس ریاست میں جب نیویارک یا بوسٹن کے تیز رفتار ڈرائیور آتے ہیں تو بڑی شرافت سے ڈرائیونگ کرتے ہیں کیونکہ یہاں پولیس آفیسر بغیر ٹکٹ دئیے نہیں چھوڑتا جب کہ دوسری ریاستوں میں اکثر وارننگ دے کر چھوڑ دیتے ہیں اور کچھ پولیس آفیسر کا ہلی کی بنائ پر گاڑیوں کا پیچھا نہیں کرتے۔تو جس ملک میں قانون سخت ہوتا ہے وہاں کی عوام کتنی بھی خراب ہو ایک دن سسٹم کا حصّہ بن جاتی ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ عوام میں خود ذمّہ داری کا احساس ہو اپنے ایمان اور اپنے کردار میں مضبوط ہوں مسلمان کا تو مذہب ہی اس کا اچھا کردار ہے اگر عوام ایمان دار اور مضبوط کردار کے ہوں گے تو اپنے لئے حکمران بھی ایسے ہی چنیں گے ۔لیکن بد قسمتی سے ہمارے عوام کی ایک بڑی اکثریت غلامانہ ذہن رکھتی ہے ان کے لئے حکمرانی صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو وڈیرہ ہو سردار ہو جگیر دار ہو جس کے آگے ہاتھ جوڑے کھڑے رہنے اور اس کے قدموں میں بیٹھنے سے سکون ملتا ہے عمران خان سے مخالفت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ایک کھلاڑی ایک کرکٹر عام سا شخص حکمران کیسے بن گیا ان کے ذہن کو قبول ہی نہیں ہورہا ہے ان کے مائنڈ سیٹ ہیں ،حیرت کی بات ہے کہ ایک ایسے جاگیر دار وڈیرے یا سردار کو اپنا حکمران دیکھنا چاہتے ہیں جو یہ پسند نہیں کرتا کہ اگر وہ کرسی پر بیٹھا ہے تو کوئی عام آدمی اس کے سامنے کرسی پر بیٹھ سکے وہ اس کے قدموں میں یا زمین پر دور بیٹھے گا اتنی نفرت کو یہ لوگ اس کا حق گردانتے ہیں۔اور پھر اسی کی غلامی کرنے کے لئے اسے پورے ملک کا حکمران بنانے کی کوشش کرتے ہیں سوچنے کی بات ہے کہ ایک بچّہ جس نے ساری زندگی علاقے کے لوگوں کو اپنے باپ کا غلام دیکھا ا ن کو باپ کے قدموں میں بیٹھا اور مار کھاتے ایک غلام کی طرح دیکھا بڑے ہوکر جب وہ ملک کا حکمران بنتا ہے تو وہ پورے ملک کو اپنا علاقہ اور وہاں کے عوام کو اپنا غلام سمجھتا ہے۔ایسے میں عدل و انصاف کی بات کرنا ایک مزاق سے کم نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ جج حضرات اتنی پاور ہوتے ہوئے بھی اپنے وڈیرے ،سردار یا جاگیر دار سیاست دانوں کی خوشنودی کے لئے ان کی مرضی کے مطابق فیصلے کرتے ہیں ابھی جنرل پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ اس کی ایک مثال ہے جنرل پرویز مشرف ایک بہادر فوجی جرنیل ،کمانڈو ملک کا حقیقی وفادار تھا لیکن سیاست میں کچھ اچھائیاں کرنے کی نیت سے ملک کے مفاد کی خاطر کچھ غلطیاں بھی کر بیٹھا۔ 2003ءمیں پارلیمنٹ سے آئین میں سترھویں ترمیم منظور کروائی جس کی رو سے افواج پاکستان کے چیف ،الیکشن کمشنر اور ججز کے تقرر کا اختیار ملک کے صدر کو دے دیا مقصد اپنی حکومت کو اور وسیع اور مضبوط کرنا تھا لیکن بد قسمتی سے یہ ترمیم مشرف کے کام نا آسکی اسے اقتدار سے ہٹنا پڑ گیا اور اس کا تمام تر فائدہ زرداری کو پہنچا جس کا خمیازہ قوم آج تک بھگت رہی ہے اس ترمیم کی مخالفت ن لیگ اور ق لیگ نے کی تھی لیکن اس وقت مقصد صرف مشرف کی مخالفت تھی۔ ہمارے ملک میں فیصلہ اس کے خلاف ہوتا ہے مجرم اس کو ٹھہرایا جاتا ہے جو یا تو ایک عام آدمی ہو یا طاقت ور کی طاقت ختم ہوگئی ہو عہدہ چھن چکا ہو عوام میں مقبولیت ختم ہوچکی ہو یا سیاسی مستقبل تباہ ہوچکا ہو۔مشرف کے معاملے میں سابق حکمران اور ان کے ججز مشرف کو تولنے میں غلطی کر گئے شائید وہ سمجھے کے مشرف کو قوم بھلاچکی ہے اب وہ بستر مرگ پر پڑا ایک مجبور اور لاچار آدمی ہے جس کو آسانی سے اپنے انتقام کا نشانہ بنالیں گے لیکن اتنے شدید ردّعمل کی توقع نہیں تھی۔ماضی میں کئی مقدمات ایسے تھے کہ جن میں سابق سیاست دان یا سابق سربراہ کو سزا ہوئی لیکن وہ دوبارہ حکومت میں آگئے اور مقدمات بھی ختم کروالئے عدالتوں اور ان کے فیصلوں کی کبھی کوئی وقعت نہیں رہی۔ نواز شریف کو 1999ءمیں بھی قید اور جرمانے کی سزا ہوئی لیکن وہ ڈیل کرکے سعودی عرب چلے گئے۔نواز شریف ہی کے دور میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پر نیب کی جانب سے کرپشن کے مقدمات تھے۔ان کو سترہ سال قید اور ڈیڑھ کروڑ روپے کا جرمانہ ہوا جرمانہ تو پتہ نہیں بھرا یا نہیں لیکن مشرف کے جانے کے بعد رہا بھی ہوگئے اور وزیر اعظم بھی بن گئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کو تمام مقدمات سے بری بھی کردیا۔ یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔پتہ نہیں کیسے اس قوم نے مجرموں اور قاتلوں کوحکومت بھی دی اور انہیں قبول بھی کیا۔ آج بھی تمام فیصلے سیاسی نظریات اور سیاسی انتقام پر ہورہے ہیں۔عام ملزمان بیس بیس سال سے مقدمات بھگت رہے ہیں ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا اور کئی ملزم انتظار کرتے کرتے جیل میں ہی دم توڑ گئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں