امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 354

اچھی، بُری عورت کا فیصلہ کون کرے گا؟

ہم اس تحریر کے شروع ہی میں یہ واضح کر دیں کہ، ہم ٹیلیویژن پر پاکستانی اور بھارتی ڈرامے وغیرہ نہیں دیکھتے۔ باوجود اس کے کہ پاکستان میں ٹی وی چینلوں کے نقار خانوں میں ہر ماہ بیسیوں ڈرامے دیکھے جاتے ہیں۔ لیکن جب گزشتہ دنوں آج کل کے ایک مقبول ڈرامے ، ’مرے پاس تم ہو‘ کے بارے میں کئی متنازعہ آرا پڑھنے کا موقع ملا، تو ہمیں یہ ڈرامہ دیکھنے کا اشتیاق ہوا۔
ڈرامے کی چند قسطیں دیکھنے اور ڈرامے کے مصنف ’ خلیل الرحمان قمر ‘ کے عورتوں اور مردو ں کے حقوق اور مساوات پر نہایت نفرت انگیز اور متنازعہ بیانات نے واضح کیا کہ، خلیل الرحمان قمر ، جنرل ضیا کی قائم کردہ ظلمت کی باقیات میں سے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ وہ ان باقیات میں سے ہیں بلکہ خود ایک انتہائی قدامت پسند ذہنیت رکھتے ہیں جو پاکستان کے بنیاد پرست سماج کی عکاس ہے۔ وہ خود کو ہر گفتگو میں خواتین کے حقوق کا علمبردار اور آزاد خیال مصنف ثابت کرنے کے لیئے ہر دلیل کے جواب میں چیخ پکار ااور دھمکیوں سے کام لیتے ہیں۔ جہاں تک دھمکیوں کا تعلق ہے وہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے بارے میں کہتے رہے ہیں کہ کوئی بھی ان کی مخالفت کی جرات نہیں کر سکتا۔ اگر ایسا کیا تو اسے آئندہ کبھی ان کے ڈراموں سے منسلک ہونے کی اجازت نہیں ملے گی۔ان کی ترقی پسندی اور آزاد خیالی کے دعووں پر ہمیں ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی ، والا مصرعہ یاد آگیا۔
’مرے پاس تم ہو ‘ کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اگر کوئی عورت ، مالی مشکلات کی بنیاد پر ، یا کسی اور مرد سے متاثر ہو کر طلاق طلب کرکے، دوسری شادی کرنا چاہتی ہے تو ہو قابلِ گردن زدنی ہے۔ اور اس کا یہ جرم کبھی معاف نہیں کیا جاسکتاہے۔ اور وہ ہمیشہ بے وفا کہلائی گی۔ اس کے ساتھ اس کا ایک مرکزی نقطہ یہ بھی ہے کہ عورت ، مرد کے مساوی حقوق نہیں رکھتی۔ وہ مرد کے طابع ہے۔ ان کے نزدیک حقوق میں مساوات طلب کرنے والی خواتین مردوں پر ظلم کرتی ہے۔ اور ہمار ے معاشرہ کامرد اصلاً مظلوم ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ خیال مذہبی قدامت پرستی کی بنیاد پر ہے لیکن ہ خود کو قدامت پرست کہے جانے پر برگشتہ ہو جاتے ہیں۔
وہ خود کو ڈرامہ نگاری کا بادشاہ گردانتے ہیں اور شاید مرتبے میں خود کو شیکسپیئر ، اور برنارڈ شا ، کا ہم پلہ گردانتے ہیں۔ اس کا اندازہ ہمیں جب ہوا جب انہوں نے اپنی نہایت عام شاعری کا مقابلہ ، میر، اور غالب سے کر دیا۔ انہوںنے ایک انٹرویو میں بلند آواز میں کہا کہ کیا میر اور غالب کے بعد کوئی اور بڑا شاعر نہیں ہو سکتا۔
آج کے میڈیا مسابقت اور ریٹنگ Rating کی جنگ کے دور میں ان کے ڈرامے کے مقبول ہونے کی وجہہ شاید یہ ہو کہ ، ہمار ا سارا معاشرہ ہی قدامت پرست ہے، جو آئین میں خواتین کو حاصل شہری حقوق کو تسلیم نہیں کرتا۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ ایک سروے کے مطابق یہ ڈرامہ مردوں میں زیادہ مقبول ہے۔ خلیل الرحمان قمر کی ذہنیت کو سمجھنے کے لیے، جس کے طابع ان کا ڈرامہ ہے۔ ہم آپ کو خود ان کے مختلف انٹر ویو مکالموں کا حوالہ دیتے ہیں، تاکہ آپ بھی سمجھ سکیں کہ ایسا انسان کیسی تحریر لکھ سکتا اور کیسا ڈرامہ پیش کر سکتا ہے۔ انہوں نے گزشتہ دسمبر میں Entertainment Pakistan ، میں گفتگو کرتے ہوئے کہا:
۔۔ خواتین کو اس ڈرامے پر ناراض نہ ہو نا چاہیے کیونکہ وہ خود مردوں کی توہین کرتی ہیں۔
۔۔۔ خواہ آپ پسند کریں یہ نہ کریں ، میں ہر عورت کو عورت نہیں گردانتا۔ جو چیز عورت کو خوبصورت بناتی ہے، وہ اس کی حیا اور وفاہے۔
۔۔۔اگر آپ میں چیزیں نہیں ہیں تو میں آپ کو عورت نہیں کہوں گا۔
۔۔۔میں اچھی عورتو ں کی لیے جنگ لڑ رہا ہوں۔ پاکستان میں کوئی بھی مجھ سے زیادہ عورتوں کے حقوق کا حمایتی Feminist نہیں ہے۔ میں عورتوں کومساوی حقوق دوں گا لیکن مردوں سے کچھ نیچے۔
۔۔۔پھر وہ ایک نہایت ہی لچر بیان دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کبھی پانچ مرد مل کر ایک عورت کو اغوا کر لیتے ہیں۔ لیکن کیا آپ نے کبھی یہ سنا کہ پانچ عورتوں نے ایک مرد کو اغوا کر لیا۔ جب عورتیں ایسا کریں گی میں ان کو مردو ں کے برابر سمجھ لوں گا۔۔۔۔میں انہیں جب مردوں کے برابر سمجھوں گا جب وہ بسوں پر ڈاکے ڈالیں گی، یا وہ مردوں کے ساتھ زنا با لجبر کریں گی۔
۔۔۔ میں یہ سمجھنا چاہوں گا کہ عورتیں آخر کیا حقوق طلب کر رہی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ مردوں نے بہت چالاکی سے عورتوں کے حقوق غصب کر لیے ہیں جس کی انہیں خبر ہی نہیں۔وہ یہ سمجھنے کے بجائے حقوق مانگتی پھرتی ہیں۔
۔۔۔ آپ مردوں کی فطرت تبدیل نہیں کر سکتے۔ اگر آپ یہ کوشش کریں گے تو معاشرے کا نظام ہی تباہ ہو جائے گا۔
۔۔، عورتیں تو (جنسی معاملہ ) میں’ نہ ‘کہہ سکتی ہیں۔ لیکن مرد فطرتاً ایسا نہیں کر سکتا۔
۔۔ عورت کو سب سے زیادہ خوف یہ ہوتا ہے کہ ، مرد اسے کسی اور کے لیئے چھوڑ دے گا۔ لیکن یہ کوئی اور بھی تو عورت ہی ہے، مرد تو نہیں۔ سو ہر عورت دوسری عورت کو نیچا دکھانا چاہتی ہے۔ اور (پھر حقوق کا ہنگامہ) بھی کرتی ہے۔
۔۔۔ شادیاں اس لیئے ناکام ہوتی ہیں کہ مرد عورت کے میک اپ سے ڈرتا ہے۔ جب مرد شادی کے بعد عوت کو دیکھتا ہے تو اس نے پچاس ہزار روپے کا میک اپ کیا ہوتا ہے۔ پھر یہ میک اپ اترجاتا ہے اور کچھ اور ہو جاتی ہے۔عورتوں کو ہمیں اپنی اصل شکل دکھانا چاہیے۔ میں اپنی ساری زندگی ایسی عورت کے ساتھ نہیں گزار سکتا جوDepilex کے استعمال میں زندگی گزار دے۔
کیا آپ کو اس سے بھی زیادہ مثالیں چاہیئں۔ شاید اس کی ہمیں ضرورت نہ ہو۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ دانش کے دعوے کرنے والے اور بہترین کہانی کا ر کہلائے جانے کے طلبگار ، خلیل الرحمان قمر، نہ انسانی نفسیات سے واقف ہیں ، اور نہ عورتوں کی جبلت سے۔ عورتیں بھی کسی سے محبت کرنے ، شادی کرنے، یا نفرت کرنے اور طلاق دینے کا وہی حق رکھتی ہیں جو مردوں کو حاصل ہے۔ وہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا حق رکھتی ہیں۔ وہ سماج میں کوئی بھی مقام حاصل کرنے کا حق بھی رکھتی ہیں ، اور اس کے قابل بھی ہیں۔خلیل الرحمان قمر یا کوئی بھی مرد کسی عورت کے اچھایہ برا ہونے کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
چلتے چلتے ہم خواتین کی نذر جون ایلیا کا یہ شعر کرتے ہیں:
”تاریخ نے قوموں کو دیا ہے یہی پیغام۔۔۔
حق مانگنا توہین ہے ، حق چھین لیا جائے۔ “
ہمارے حوالے اس انٹرویو سے لیئے گئے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں