Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 220

بلیک میلنگ

اٹلی کی مافیا آہستہ آہستہ اور غیر محسوس طریقے سے جب اتنی طاقت ور ہو گئی کہ اس کے آدمی گورنمنٹ کے اہم عہدوں اور حساس اداروں میں شامل ہو گئے اور حکومتی معاملات میں بھی اثر انداز ہونے لگے تو حکومت کو یا کسی بھی شعبے کے سربراہ کو بلیک میل کرنے میں آسانی ہو گئی۔ مسولینی جب پہلی مرتبہ وزیر اعظم کی حیثیت سے مافیا کے گڑھ پالیرمو گیا تو اسے معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا۔ وہ وزیر اعظم تھا لیکن مافیا جس مقام پر پہنچ گئی وہاں اس پر قابو پانا بہت مشکل تھا اس کے باوجود میلان واپس جا کر اس نے پراعتماد اور مخلص لوگوں کو جمع کیا جس میں وہ مجسٹریٹ بھی تھے جنہوں نے مافیا سے ٹکر لینے کا عہد بھی کیا اور بعد میں مارے بھی گئے۔
مسولینی مافیا کو توڑنے میں کامیاب ہو گیا تھا لیکن پوری طرح ختم نہیں کر سکا، دوسری جنگ عظیم شروع ہو جانے کے بعد وہ بھی جنگ کے میدان میں کود گیا جس کے نتیجے میں سسلی اس کے ہاتھ سے نکل گیا اور مافیا کے ان افراد کو جو حکومت میں شامل ہو چکے تھے مسولینی کے خلاف محاذ کھڑا کرنے کا موقعہ مل گیا۔ مسولینی سے استعفیٰ لے لیا گیا لیکن ایک معاہدے کے بعد اسے اٹلی کے ایک علاقے کا انچارج بنا دیا گیا لیکن جو لوگ مسولینی کے پیچھے پڑے ہوئے تھے انہوں نے خانہ جنگی کروا دی، مسولینی نے اپنی بیوی کے ہمراہ سوئٹزرلینڈ فرار ہونے کی کوشش کی لیکن گرفتار ہوا۔ مسولینی اور اس کی بیوی کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کرکے سزائے موت دے دی گئی۔ بعد میں ان دونوں کی لاشوں کو میلان کے ایک پبلک مقام پر الٹا لٹکا دیا گیا۔
ان سب باتوں کا بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ مافیا ٹائپ گروپ شروع میں ہی ختم نا کئے گئے تو پھر یہ اتنے طاقت ور ہو جاتے ہیں کہ حکومتوں کو بلیک میل کرتے ہیں لیکن ان کے پروان چڑھنے کی وجہ خود کرپٹ حکومتیں ہوتی ہیں۔ قانون کی پاسداری نہیں ہوتی، رشوت کا دور دورہ ہوتا ہے، کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں ہوتا اور جرائم پیشہ افراد معاشرے میں دندناتے پھرتے ہیں اور اگر حکومت تبدیل ہونے کے بعد کوئی ایمان دار سربراہ آ جائے تو یہ مافیا اس کا حشر وہی کرتی ہے جو مسولینی کا ہوا تھا۔ جب ملک میں نفسانفسی کا عالم ہو تو دشمن ممالک ان ہی مافیا گروپس کو اپنا آلہءکار بنا کر کبھی مذہب کے نام پر کبھی قومیت کے نام پر اور کبھی سیاست پر ملک میں انتشار پیدا کرتے ہیں۔ ہمارے ملک کی موجودہ صورتحال یہی ہے، مافیا کے مختلف گروپس پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وقت پڑنے پر ایک دوسرے کا ساتھ بھی دیتے ہیں، اس میں کئی بڑے عہدے دار بھی شامل ہیں، کئی قابل عزت محکموں میں بھی کالی بھیڑیں موجود ہیں، ان حالات میں ایماندار سے ایماندار شخص بھی ملک کی حالت نہیں بدل سکتا۔ اگر عام لوگ ان دشمنوں کو نا پہچانے اور ان کا ساتھ دیں، ہر تھوڑے عرصے بعد کوئی نا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجاتا ہے یا کوئی نا کوئی مسئلہ کھڑا کردیا جاتا ہے، بعض واقعات صاف معلوم دیتے ہیں کہ پلاننگ ہوئی ہے لیکن عام لوگ نہیں سمجھتے۔ مخالفتوں کا ایک طوفان کھڑا ہو جاتا ہے، دشمن ہماری کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں، ہمارے ملک کی اکثریت مذہب کے معاملے میں بہت جذباتی ہے لہذا مذہب کی آڑ لے کر کوئی نا کوئی فتنہ کھڑا کردیا جاتا ہے اور کوئی نا کوئی گروپ اس معاملے کو اچھال کر ان جذباتی لوگوں کا سہارا لے کر حکومت کو بلیک میل کرنے میدان میں آجاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسلام صرف ہمارے ملک تک محدود ہو گیا ہے، کسی بھی اسلامی ملک یا ان کے عوام کی جانب سے کسی بھی معاملے پر کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔ صرف ہمارے عوام ہی توڑ پھوڑ شروع کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یوروپی یونین پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دے رہی ہے۔ ملک کو بیرونی دشمنوں سے زیادہ اندرونی دشمنوں سے خطرہ ہے۔ اپنے اور اپنی پارٹی کے مفاد کے لئے ملک کو داﺅ پر لگانے والے دشمن ہی تصور کئے جائیں گے۔
موجودہ واقعات میں پاکستان کی ایک کالعدم جماعت نے فرانس کے معاملے کو اچھال کر اور دھرنے کی دھمکیاں دے کر حکومت کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے وہ سراسر صرف ان کے مفاد میں جاتا ہے، اس سے ملک و عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ عام لوگوں کو صرف اتنا فائدہ ہے کہ ان کا ساتھ دینے کے جرم میں گرفتار ہوئے تھے رہا ہو جائیں گے اور بے چارہ دوبارہ اپنی مزوری پر چلے جائیں گے۔ ان گرفتار ہونے والوں یں کتنے عام لوگ تھے اور کتنے جرائم پیشہ لوگ تھے اس کی کسی کو بھی فکر نہیں ہے۔ حکومت اپنی کرسی بچا رہی ہے اور پارٹی اپنا مفاد دیکھ رہی ہے۔ پہلے تو یہ طے کیا جائے کہ کالعدم پارٹی واقعی شر پھیلا رہی تھی یا دہشت گردی کررہے تھے کہ ان کو کالعدم قرار دیا اور اب ان کو دوبارہ پاک صاف کرکے سیاسی پارٹی کے طور پر قبول کیا جارہا ہے۔ تو غلط کون ہے یہ کالعدم پارٹی یا حکومت؟ اگر عوام میں اتنا سوچنے کا شعور ہوتا تو حالات ایسے نہ ہوتے، ایک کالعدم پارٹی کو جن پر کئی سنگین الزامات بھی ہیں اس کی دھرنے کی دھمکیوں میں آکر اس کے مطالبات مان لینا جو سراسر پارٹی کے حق میں ہی جاتے ہیں، حکومت کی ناکامی ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے جب میں دیکھتا ہوں لوگ دور دراز سے ان پارٹیوں کے کہنے پر بلکہ بہکانے پر اپنا کام دھندہ چھوڑ کر اسلام آباد کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں اور اپنے مسائل کے لئے جس میں پولیس کی غنڈہ گردی سرفہرست ہے، بے شمار ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں جہاں پولیس بے گناہ غریب اور معصوم شہریوں پر ظلم کرنے والوں کو بچانے کی کوشش کرتی ہے۔ بے چینی، انتشار، بد نظمی، لاقانونیت کی ایک بڑی وجہ پولیس کا رویہ اور رشوت خوری ہے۔ بچوں کا یا خواتین کا ریپ ایک عام بات ہو گئی ہے۔ کئی معاملات میں پولیس ریپ کرنے والوں کو بچانے کی کوشش کرتی ہے۔ بے شمار واقعات میں غریب لوگ پولیس کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہ جاتے ہیں اور جواب میں دھمکیاں ملتی ہیں۔ کیا یہ لوگ جو کسی مافیا کا آلہ کار بن کر تمام کام چھوڑ کر اسلام آباد کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں اور ایک بہت بڑی تعداد میں دھرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں، کیا یہ پولیس کے خلاف، جرائم پیشہ افراد کے خلاف، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی کے خلاف کیوں نہیں دھرنا دیتے ہیں۔ کون سا ایسا علاقہ ہو گا جہاں کے رہنے والے اپنے علاقے کے تھانیدار کے بارے میں نا جانتے ہوں یا جرائم پیشہ افراد یا زہر بیچنے والوں کو نا جانتے ہوں لیکن اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر آواز نہیں اٹھائیں گے لیکن مفاد پرست پارٹیوں کے لئے جیل بھی چلے جائیں گے، گولیاں بھی کھالیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں