امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 606

تباہی سر پہ کھڑی ہے، ہمیں خبر ہی نہیں

ہم انسان ، ہماری زمین ، ہمارا سمندر، ہماری سمندر تیزی سے فنا اور تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہمیں یاتو اس کی خبر ہی نہیں ہے، یا ہم شتر مرغ کی طرح سر چھپائے کھڑے ہیں۔ یا جل ت±و جلال ت±و کی گرد ان کرتے اس خوش فہمی میں بیٹھے ہیں کہ سر پر آئی بلا گز ہی جائے گے۔ لیکن بلا گزرنے والی یا ٹلنے والی نہیں ہے۔
اس کی خبر ہمیں ہر روز ہر لمحہ ملتی ہے۔ کبھی اخباروں سے ، کبھی جدید ذرائع ابلاغ سے، اور تقریباً ہر لمحہ اپنے ہاتھوں میں موجود ٹیلی فونوں اور اس ہی طرح کے مختلف وسائل سے۔ آج ہی اقوامِ متحد کی ایک اہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئندہ دس سالوں میں مختلف حیاتیات کی دس کروڑ سے زیادہ اقسام فنا ہو جایئں گی۔ اس حیاتیا ت کا ایک دوسرے پر انحصار اتنا گہر ا ہے کہ اس تباہی کے نتیجہ میں انسان کی تباہی لازم ہے۔ گو ہمیں خبر نہیں ہے کہ قیامت کب آئی گی، لیکن وہ گھڑی یوں لگتا ہے کہ قریب آتی چلی آرہی ہے۔ اقوام ِ متحد کی تازہ ترین رپورٹ یا جائزے کا خلاصہ یہ ہے:
۔۔ انسانی عمل سے پچھتر فی صد زمینی اور چھیاسٹھ فی صد زمینی ماحول میں ناقص تبدیلیاں ہو چکی ہیں۔
۔۔اس وقت زمین کی ایک تہائی سے زیادہ سطح ، اور پچھتر فی سے زیادہ آبی وسائل، فصلوں اور مویشیوں کی افزائش کے لیئے استعمال ہو رہے ہیں۔
۔۔ہر سال تقریباً چھ سو ارب ڈالر کی فصلیں ، زرِ گ±ل کی تباہی کی وجہہ سے برباد ہونے کے خطرے میںہیں۔
۔۔اس وقت دس کروڑ سے تیس کروڑ تک انسان، بڑھتے ہوئے سیلابوں اور طوفانوں کی وجہہ سے گھر بار اور سر چھپانے کے ٹھکانوں سے محروم ہو رہے ہیں۔
۔۔سنہ بانوے سے اب تک شہری علاقوں کا پھیلاﺅ دو گنا سے زیادہ ہو چکا ہے۔ جس کے نتیجہ میںنہ صرف فصلیں اگانے کا رقبہ کم ہوتے جارہا ہے ، بلکہ وہ غیر انسانی جانیں بھی برباد ہورہی ہیں جن پر انسانی حیات کا انحصا ر ہے۔
۔۔پلاسٹک اور اس قسم کی مادے کی وجہ سے ماحول کی آلودگی میں ، سنہ اسّی سے اب تک دس گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ ہر سال دس سے تیس کروڑ ٹن کے قریب بھاری معدنیات، پلاسٹک، کیمیائی مادہ، زہریلی کیچڑ، اور دیگر صنعتی فضلہ سمندروں میں پھینکا جار ہا ہے۔ جس کے نتیجہ میں وہ سمندری مخلوق جسے انسان استعمال کرتے ہیں، فنا ہوتی جارہی ہے۔ اس کی عام فہم مثال وہ مچھلیاں ہیں جنہیں اربوں انسان خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں، اب اتنی زہریلی ہوگئی ہے کہ انسانوں کے استعمال کے قابل نہیں رہی ہیں۔ انسان زمیں سے وہ معدنیات اور وسائل نکال نکال کر استعمال کیئے جارہا ہے جو دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتے ، اس کی عا م مثال جنگلوں کی تباہی اور تیل اور گیس کی پیداوار ہے۔ ان کا توا نائی اور دیگر ضرورتوں کے لیئے روز افزو ں استعمال ایک طرف تو سخت ترین مہنگائی ہمارے سر پر لیئے کھڑا ہے، دوسری جانب ان گھٹتے ہوئے وسائل پر قبضہ کے لیے بین الاقوامی جارحیت اور کھلی اور چھپی جنگوں میں اضافہ ہے جس کا لازمی نتیجہ امنِ عالم کی تباہی ہے۔
دنیا کے کئی ملکوں میں جن میں ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک شامل ہیں ، متعدی بیماریں اور وبایئں پھیل رہی ہیں۔ ان میں پولیو، چیچک ، خسرہ ، تپِ د ق، جیسے موذی امراض شامل ہیں۔ ان بیماریوں پر دفاعی ٹیکوں اور پ±راثر دواﺅں کے استعمال سے قابو پایا گیا تھا۔ لیکن گزشتہ کئی سالوں سے مذہب اور قدامت پرستانہ دباﺅ کے نتیجہ میں ان کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں کا تو ذکر ہی کیا ، جہاں ٹیکے لگانے والے کارکنوں کو موت کی دھمکیو ں کے پیشِ نظر خود حکومت پسپا اور بے بس ہوتی جاتی ہے۔ خود امریکہ اور کینیڈا جیسے ممالک میں بھی تمام تر سائنسی شہادتوں کے باجود ایسی مذہبی اور قدامت پرستانہ مہم چلا ئی جارہی ہے جو ٹیکوں اور دفاعی دواﺅں کے خلاف ہے، ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ اس قسم کہ مہم کو خود موجودہ امریکی صد ر ڈونلڈ ٹرمپ کی اعلانیہ اور خفیہ حمایت حاصل ہے۔
تباہی کے اشارے تو ہمارے سامنے ہیں، اور ان کی شہادتیں نا قابلِ تردید ہیں۔ لیکن کیا ہم ان کو قبول کر کے خاموشی سے تباہی کا انتظار کرتے کرتے خود ک±شی کرتے رہیں؟ انسان اپنی تمام تر کمزوریوں کے باجود یہ ثابت کرتا رہا کہ اس کی فطرت میں تباہی کے خلاف جدو جہد شامل ہیں۔ سو ہم سب کو بھی بحیثیت انسان نہ صرف انسانیت کا دفاع کر نا ہے بلکہ اپنے سیارے، اپنی زمین ، اپنے سمندر، او راپنے ہی جیسے انسانوں، اس ماحول ،اور اس حیاتیات کا دفاع کرنا ہے ، جس پر ہماری بقا کا باہمی انحصار ہے۔
ایک مشترکہ معاشرے، ماحول، اور نوعِ انسانی کے ایک ادنیٰ فرد کے طور پر بھی ہم اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہم پلاسٹک کے استعمال میں کمی کر سکتے ہیں، قابل استعمال اشیا کو پھینکنے کے بجائے ان کے مسلسل اور دوبارہ استعما ل کے طریقے اپنا سکتے ہیں۔ ہم روز مرہ استعمال کے کیمیائی مادوں کے استعمال میں کمی کر سکتے ہیں۔ زمینی درجہ حرارت کے اضافہ کے محرکات میں کمی کر سکتے ہیں۔ اپنے حلقہ اثر میں ٹیکوں اور دفاعی دواﺅں کے استعمال کی ترغیب کر سکتے ہیں۔ مذہبی فکر کو سائنیسی شہادتوں پر فضیلت دینا ترک کر سکتے ہیں۔
غرض یہ کہ ہم اپنی خود ساختہ تباہی کو روکنے یا اس میں حتٰی الامکان تاخیر کی فکر بھی کر سکتے ہیں اور اس پر عمل بھی۔ ہم اس عقل کو استعمال کرتے ہوئے جو ہم کو ودیعت کی گئی ہے، نا صرف اپنی بقا کی بلکہ اپنی زمین اور اپنے ماحول کی ہر دیگر حیات کی بقا کی فکر کر سکتے ہیں۔ یہ ہمارا، عین انسانی فرض ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں