Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 644

ترتیب، تنظیم، تزئین گلستاں

ہر دور یکساں نہیں رہتا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عمر کی ایک حد پھلانگنے کے بعد معاشرتی طور پر پرانا دور بھلا معلوم ہوتا ہے حالانکہ کئی معاملات میں آنے والا دور اچھا ہی ہوتا ہے اصل میں نئی نسل کے ساتھ دوڑنے کی طاقت نہیں رہتی اور نہ ہی نئے دور کے تقاضے سمجھ میں آتے ہیں منہ کڑوا ہوجاتا ہے اور بے اختیار زبان سے یہ الفاظ ادا ہوجاتے ہیں کہ نئی نسل بگڑی ہوئی ہے ہمارا دور اچھا تھا یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے پچھلی صدی کے ایک شاعر اور مفکّر اکبر الہ ‘ آ بادی نے کہا تھا کہ۔۔۔
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کہ بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
جس وقت یہ شعر کہا گیا تھا اس وقت کے لوگ نئی نسل کو برا بھلا کہتے ہوئے کوچ کرچکے ہیں ۔لیکن آج پاکستان کے نوجوانوں نے جس طرح موروثی سیاست کو ختم کرنے اور بادشاہت کے خاتمے کے لئے قدم اٹھائے اور عمران خان کا ساتھ دیا وہ ایک قابل تعریف عمل ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ ہر دور اپنے ساتھ کچھ خرابیاں لے کر آتا ہے اور کچھ خرابیوں کو اپنے ساتھ لے بھی جاتا ہے۔لیکن آنے والے وقت کے لئے منصوبہ بندی اور کچھ معاملات میں پیش بندی بہت ضروری ہے۔ پاکستان بننے کےایک ہی سال بعد قائد اعظم کوچ کرگئے لیاقت علی خان کو راستے سے ہٹانے کی تیّاریاں شروع ہوگئیں اور اس میں کامیابی بھی مل گئی کچھ قائدین غیر ملکی ایجنٹ بن گئے ایسے میں ملک چلانے کے لئے منصوبہ بندی اور ترتیب گلستاں کی کس کو پڑی تھی۔ایّوب خان کے آنے کے بعد منصوبے بنے ان پر عمل ہوا اور نظر آنے لگا کہ ملک ایک مثبت سمت کی طرف چل پڑا ہے ایّوب کے جانے کے بعد اگر سلسلہ یوں ہی چلتا تو بہت اچھا ہوتا لیکن ضمیر فروش تو گھات لگائے بیٹھے تھے منصوبہ بندی تو ایک طرف یہاں تو ملک کی جڑیں کھودنا شروع کردیا گیا۔ دنیا بھر کے ممالک میں آنے والے وقت کے لئے کچھ پیش رفت ہوتی ہے طویل عرصے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں اور ان پر عمل ہوتا ہے۔لیکن یہ منصوبہ بندی ترقّی یافتہ ممالک میں بھی سوفیصد نہیں ہوتی ہے ان ممالک میں اس کی شرح چالیس سے ساٹھ فیصد ہے جب کہ ہمارے اور ہمارے جیسے کئی ممالک میں اس کی شرح صرف دس فیصد ہے جو کہ قابل ذکر بھی نہیں ہے جہاں اس کی شرح زیادہ ہے وہاں ایک پروگرام کے تحت بچّے کی ابتدائی تعلیم سے ہی اس کو ایک خاص تربیتی ماحول ملنا شروع ہوجاتا ہے جو کہ اس کی تکمیل تعلیم تک جاری رہتا ہے اور عملی زندگی میں آنے کے بعد اس تربیت میں ڈھلے ہوئے افراد ملک اور معاشرے کی ترقّی میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں آج کے غیر ترقّی یافتہ ممالک میں سے کچھ کے پاس وسائل اور اچھّے ذہن ہونے کے باوجود اچھّی قیادت نہ ہونے کے باعث تعلیمی اور تربیتی پروگرام نہ تھے جس کی وجہ سے ان وسائل اور ذہنوں کو زنگ لگنا شروع ہوگیا۔بدقسمتی سے یہی کچھ ہمارے ملک میں ہوا کہ ہماری قیادت ایسے لوگوں پر مشتمل رہی جو خود بھی تعلیم و تربیت کی اہمیت سے ناواقف تھے اور جو تعلیم یافتہ تھے وہ تعلیم پھیلاکر اپنے مقابل نہیں لانا چاہتے تھے بہرحال ان ذہنوں سے جو ہمارے ملک میں موجود تھے ہمارے حکمرانوں نے تو کام نہ لیا لیکن ان ممالک کے ماہرین نے جن کے پاس تربیتی پروگرام موجود تھے اور جن کو اپنے ملک کی مزید ترقّی سے دلچسپی تھی ان کی جوہر شناس نظروں نے ہمارے پاس سے ان ہیروں کو چن لیا یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کے بے شمار ڈاکٹر انجینئر سرجن سائینسداں اور کئی دوسرے شعبوں کے افراد ان ممالک کی ترقّی میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں اور ابھی تک کررہے ہیں لیکن اب اس میں کمی یوں آگئی ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم کا معیار اور پست ہوگیا ہے۔تعلیمی اور تربیتی ماحول کے فقدان کی وجہ سے بےشمار ایسی ایجاوات جن کا غلط استعمال تباہ کن ہے ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ اس کے بارے میں لوگوں کو آگاہی ہو۔ان کے نقصانات سے متاثّر ہونے والوں کی تعداد ترقّی یافتہ ممالک میں چالیس فیصد اور ہمارے ملک میں نوّے فیصد ہے ۔تعلیم کے لئے نئی ایجادات کے استعمال کے لئے خود ایجادات کے لئے اور ملک کی تعمیر اور ترقّی کے لئے ہمارے ملک میں کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوتی ہے۔آج اگر کسی ترقّی یافتہ ملک کی مثال دی جائے تو لوگ ناک بھوں چڑھاتے ہیں کہ ایک ایسے ملک کی مثال کیوں دی جارہی ہے جو دولت میں معیشت میں ترقّی میں ہم سے سو گنا آگے ہے ۔نادانوں کو کون سمجھائے کہ یہ وہ ممالک ہیں جو کبھی ہمارے برابر اور کچھ ہم سے بھی بری حالت میں تھے ان میں جرمنی بھی ہے جسے 1963ءمیں پاکستان نے اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کے لئے 12 کروڑ کا قرضہ دیا تھا اس زمانے کا بارہ کروڑ آج کے پاکستان کے اوپر قرضے کے برابر ہے۔ان لوگوں نے پوری دیانت داری سے محنت کرکے ترقّی کی اور آج ہم سے سو گنا آگے ہیں۔ امریکہ کی سرزمین پر یوروپ کے مختلف ممالک سے لوگ آکر بس گئے تھے ان میں برطانیہ کے لوگوں کی تعداد زیادہ تھی اور انہوں نے اس علاقے کو برطانوی کالونی بنادیا تھا لیکن بعد میں دوسرے تمام لوگوں نے برطانیہ کے تسلّط کو منظور نہ کیا اور متحد ہوکر جنگ کا اعلان کردیا اور جولائی 1776ءکو امریکہ نے برطانیہ کو شکست دےکر مکمل آزادی کا اعلان کیا۔ چونکہ کئی ممالک کے لوگ علیحدہ علیحدہ علاقوں میں اکثریت میں تھے لہذا تمام ملکوں کے نمائندے ایک میز کے گرد بیٹھے مستقبل کے بارے میں لائحہ عمل طے کیا ہوئے اور اتّفاق رائے سے 21 جون 1788ءمیں اپنا آئین ترتیب دیا، مستقبل کے لئے سو سال کی پلاننگ کی گئی اور یہ سو سال کی پلاننگ اس طرح کی کہ کئی سو سال تک اس پر عمل ہوسکتا تھا اور ترقّی کی راہ پر گامزن ہوگئے یہی وجہ ہے کی ایک سسٹم ایک اصول ابھی تک قائم ہے۔ٹیکس ،انشورنس۔قانون ،انسانی حقوق زندگی کی بنادی ضروریات کی فراہمی سب ایک اصول کے تحت ہورہے ہیں۔سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر اسٹیٹ کا اپنا علیحدہ آئین ہے ۔بدقسمتی سے ہمارا ملک بنتے ہی حکومت پر قبضہ کرنے کے لئے بھاگ دوڑ اور رسّہ کشی شروع ہوگئی ۔لوگ مال غنیمت کی طرح ٹوٹ پڑے جس کے ہاتھ جو لگا لے بھاگا بیٹھ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کے بجائے حکومت ہتھیانے کے منصوبے بنائے جانے لگے اور آج تک صرف ان ہی منصوبوں پر کام ہورہا ہے۔مجھے کچھ عرصہ جاپان میں بھی رہنے کا اتّفاق ہوا جو تہذیب و تمدّن جاپان میں دیکھنے کو ملا شائید وہ کہیں بھی نہ ہو۔مستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے جاپان اور اس کے بعد چین میں اس کی شرح سب سے زیادہ ہے یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں ممالک آہستہ آہستہ دنیا کی کئی ترقّی یافتہ اقوام کو پیچھے چھوڑتے جارہےہیں۔ہمارے ملک میں بھی ایک مضبوط حکمت عملی کے ساتھ اور عرق ریزی سے ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور شائید اب وقت آگیا تبدیلی آئی ہے ۔نئی امیدیں ،نئی امنگیں،نئی روشنی،نیا پاکستان اجڑے ہوئے دیار کو پھر سے آباد کرنے کے لئے نیا حوصلہ وہ گلستاں جس کے کچھ رکھوالوں نے اسے اجاڑ کر رکھ دیا نئے رکھوالوں سے تنظیم گلستاں تزئین گلستاں اور ترتیب گلستاں کی امید اسی صورت ممکن ہے جب خود عوام اپنی صفوں میں ترتیب پیدا کریں گے۔کئی لوگوں کو ماضی کے بدنما نقوش اپنے دامن سے صاف کرنے ہوں گے چہرے پر سجے ہوئے بدعنوانی کے نشانات مٹانا ہوں گے۔حرام کو خیر آباد کہہ کر گزارا کرنا ہوگا ایک ایسے باپ کی مانند جو محنت مزدوری کرکے اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بیٹے کو تعلیم دلواکر کمشنر بناتا ہے اس طرح کی مثالیں اب بھی موجود ہیں۔اسی طرح قوم کو اپنی آئیندہ آنے والی نسلوں کو کچھ دینے کے لئے تھوڑی سی سختی جھیلنا پڑے گی۔سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کچھ جاہل جن کا تعلّق حکومت کی مخالف پارٹی سے ہوتا ہے وہ جھوٹی اور گمراہ کن خبروں سے اور صرف اپنی مخالف پارٹی کو نقصان پہونچانے کے لئے ایسی حرکتیں کرتے ہیں جس سے ملک کو نقصان پہونچے ترقّی کی راہ میں رکاوٹ ہو اور دوسرے ملکوں میں بدنامی کا باعث ہو اگر کوئی جائز شکایتیں ہوں تو اس پر آواز اٹھانا کوئی بری بات نہیں ہے۔عمران خان کے حکومت میں آنے کے بعد مخالفین جس طرح فوٹو شاپ سے الٹی سیدھی تصویریں اور جھوٹی خبریں بناکر سوشل میڈیا پر ڈال رہے ہیں وہ جہالت اور بے وقوفی کی اعلیٰ مثال ہیں۔ اپنی اور اپنے ملک کی عزّت کا خیال رکھنے اور ملک کو ترقّی کی راہ پر دیکھنے کے یہ طریقے نہیں ہیں۔ اپنی، اپنے ملک اور آنے والی نسلوں کی تقدیر بدلنا ہے تو سب سے پہلے اپنے ذہن بدلنے ہوں گے، منفی سوچ کی جگہ مثبت سوچ کو لانا ہوگا۔ تب ہی ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں