کسی سے بات کیجئے! 177

”جلے ہوئے آسمان کے پرندے“ کا ادبی تجزیہ!

کتاب سے میرا تعارف شائع ہونے سے چند سال پہلے ہی ہوچکا تھا جب زاہد امروز کی چند نظمیں “ اسلام پورہ میں ایک بدروح افسردہ ہے “ اور “نظم کیلئے غسل واجب نہیں” پڑھیں۔ یہ نظمیں انسانی کیفیات، حقیقت، بے بسی اور عصرِ حاضر کی جدیدیت لئے اپنی الگ تاثیر رکھتی تھیں۔ کہیں رومان نہیں تھا، لفاظی نہیں۔ زاہداِمروز کی نظمیں اپنے موضوعات، امیجری،خاص اسلوب اور منفرد استعاراتی نظام کی وجہ سے اپنی الگ شناخت رکھتی ہیں۔ جذبے کی شدت، اظہار کی سچائی اور مخصوص کرافٹ اِس شاعری کی خصوصیت ہیں۔ یہ شاعری نہ صرف ہمارے اِنفرادی تجربوں کے قریب ہے بلکہ ہمارے اجتماعی لاشعور کی آواز بھی ہے۔
اس کتاب میں شامل نظمیں روایتی کلاسک انداز سے ہٹ کے اپنی الگ موضوعات ، اپنے الگ مزاج کے ساتھ جدید نظم کے ارتقامیں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔کہیں کہیں لگتا ہے کہ ان نظموں کی جدیدیت میں ن م راشد اور مجید امجد کی نظموں کا تسلسل ہے لیکن ان کے دور سے ہٹ کے آج کے دور کے تقاضوں کو بخوبی نبھایا گیا ہے بنا کسی رکاوٹ کے ، بنا کسی بیانیے کے .
گزشتہ دہائی میں لکھی جانے والی ا±ردونظم اپنی اساس میں بیسویں صدی کی جدید شاعری کا تسلسل ہوتے ہوئے اس سے قدرے مختلف ہے۔ یہ ا±ردوشاعری کی ایک نئی جہت ہے جس میں موضوعات، اسلوب، ہیئت، احساس اور خیال کی سطح پر نظم کا منفرد اور واضح انداز دیکھنے کو ملتا ہے۔ اِس کی بنیادی وجہ زندگی اور سماج میں برپا ہونے والی وہ تبدیلیاں ہیں جو نئی نسل کے تجربات کا حصہ ہیں۔محض چند شعراءاِن نئے تجربات اور احساسات کو کامیابی سے ایک نئے شعری نظام میں منتقل کر پاتے ہیں۔ زاہد اِمروز کی نظموں نے اِس نئے شعری رجحان کو مستحکم کرنے اور اسے ادبی اعتبار فراہم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔آج نوجوان شعرائ کی بڑی تعداد اِس شعری رجحان سے ہم آہنگ ہے
اسلام پورہ میں ایک بدروح افسردہ ہے
….
عورت جو چھ سال پہلے مر چکی ہے
اس کی لاش ابھی تک صحن میں پڑی ہے
عورتیں میّت کے سرہانے بیٹھی ہیں
کمرہ چغلیوں سے بھراہوا ہے

اسلام پورہ کی گلیوں میں بد روحیں پھرتی ہیں
اور میرے دل میں سستا نے آتی ہیں

“نظم کیلئے غسل واجب نہیں “میں ایک پریکٹیکل سوچ ہے اور اس سے بھی زیادہ آج کی مصروف ترین زندگی میں جذبات، خواہشات اور کیفیات کیلئے پریکٹیکل اپروچ۔
ادیب جس جگہ رہتا ہے چاہے عارضی ہو یا مستقل وہاں کی تہذیب اور زندگی کے اثرات ادب میں بھی محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ زاہد امروز جو اس وقت یورپ میں زیرِ تعلیم تھے وہاں کی تیز رفتار زندگی کی مصروفیت، مشکلات اور لوگوں کے رش سے امڈتی ہوئی تنہائی ان کی نظموں میں پوری شدت سے نظر آتی ہے اور جا بجا پھیلی ہوئی ہے

لندن لڑکیوں سے بھرا پڑا ہے
لیکن دل کا دالان خالی ہے
عمر علی
لندن ہو یا لائلپور
دنیا ایک سی ہے
ان لائینز کو پڑھ کے جیمز جوائس کی شارٹ سٹوری “Araby” یاد آتی ہے جو آج سے بہت سال پہلے پڑھی تھی اور جس سے اندازہ ہوا تھا کہ کائنات کی تکلیف دہ حقیقتیں انسان کی ذاتی سوچ اور تخیل سے بہت مختلف ہیں زاہد امروز کی نظموں میں “بے ثباتی “ کا مرکزی خیال بار بار سامنے آتا ہے۔ بے “ثباتی”وہ المیہ ہے وہ مرکزی خیال ہے جس کے گرد عصرِ حاضر کا ادب طواف کرتا ہے کہ ہمارے دور میں جو چیز سب سے نمایاں ہوکے سامنے کھڑی ہے وہ یہی بے ثباتی ہے
شاعر دنیا کی رفتار کے ساتھ بار بار خود کو ڈھالتا ہے مگر حقیقت ہر بار کسی اور تجربے کے ساتھ سامنے آجاتی ہے

یوں لگتا ہے
دنیا ایک کروڑ مربع میل پہ پھیلا بجلی گھر ہے
جینے کی کوشش میں جب ہم جلدی کرتے ہیں
ننگی تار سے جھولتا کوا بن جاتے ہیں

کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے
سویا ہوا دن
سہما ہوا آدمی
عریاں بدن میں رات
نظموں اور وقت کی یہ تقسیم قاری کا ہاتھ تھامے ایک تجسس سے گزارتی ہے کہ ہر حصے میں شاعر کن حالات سے گزر رہا ہوگا یا کونسے واقعات ہیں جو قلمبند کئے گئے۔ جیسا کہ شاعری نثری نظموں پر مبنی ہے تو مجھے لگتا ہے جیسے ہر نظم ایک افسانہ ہے یا ایک مکمل ناول اور ہر حصہ ایک مکمل دور ہے حاصل اور لا حاصل کا۔
سویا ہوا دن استعاروں کی زمین پر خوبصورت نظموں سے بھرا ہوا ہے جہاں شاعر جسم اور روح کے سفر سے دنیا کو دیکھتا ہے کہیں کشمکش ہے ،کہیں تنہائی ، کہیں بے بسی اور کہیں اکتاہٹ لیکن ایک تسلسل ہے جو کہیں رکتا نظر نہیں آتا شاعر آگے بڑھتا رہتا ہے جو بے ثباتی اور عدم کے دروازے پر کھڑی بھرپور زندگی کی علامت ہے
“بے نام دن کے نام ایک خط”
………………….
روشن دِن کی پری ہماری گلیوں سے خاموش گزرجاتی ہے
اور موت کی عریاں ڈائین بستر میں گھس آتی ہے

روزانہ ہم مزدوری کرنے جاتے ہیں
سارا وقت ایک وحشی دن
ہم پر ہنستا رہتا ہے
ہم شام کا بھاری جسم اٹھائے لوٹ آتے ہیں
رات ہمارے گلے لپٹ کر روتی ہے
اور پوچھتی ہے
کن خوابوں کے پیڑ ہمارے صحن میں ہیں؟
زخمی نیندیں کس خواہش کے پھل کو چکھتی رہتی ہیں؟
ہم کس خوشبو کا باطن ہیں؟
ہم تو تڑخے گملوں کے کملائے پھول ہیں
اور مشک کافور ہمارے دل کے قبرستان میں
چاروں جانب مہک رہا ہے
اسی حصے میں محبت کی شدت ہے ، تکمیل ہے ، ایک ناختم ہونے والا تسلسل ہے سفر ہے۔ عورت اور خوبصورتی شاعری کا جزو لازم ہیں کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں بقول جان کیٹس” خوبصورتی حقیقت/سچائی ہے” اور جب خوبصورتی کی بات آتی ہے تو وہ دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کی سچائی ہی ہوتی ہے جو قائم رہنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ زاہد امروز کی نظموں میں عورت اسی سچائی کے ساتھ موجود ہے وہ حسن کا بت نہیں جسے دل میں رکھ کے پوجا جائے وہ ایک ذہین عورت ہے جس کی اپنی شخصیت ہے جسے ہر طرح سے سمجھاجائے اور جس کے ساتھ ہر ساعت روشن کی جاسکے۔ ایک نظم کی چند سطریں جو حیران کن حد تک متاثر کن ہیں اور کسی بھی عورت کی تکمیل کا سفر مرد کی اس سوچ کے ساتھ پروان چڑھتا ہے جہاں عورت کا وجود مکمل طور پر تسلیم کیا جائے:
تم وہی رہو
پوری اور ادھوری
جس کا دل ہے سیاروں کا سورج
جس کا جسم ہے ساری کائنات
تم وہی رہو
عیاری سے پاکیزہ
جس کو پوجنا چاہتا ہے
دنیا کا مکار خدا !!!
اورآخری مصرعے کا سچ صرف عصر حاضر کا زاہد امروز ہی لکھ سکتا ہے
سہماہوا آدمی اپنے گرد کے ماحول کی تلخیوں، جذباتی اور اقتصادی مسائل میں الجھا ہوا ارد گرد سے بے پرواہ ہے لیکن اس کی سوچیں اپنے ماحول کے حبس سے افسردہ ہیں وہ کئی بار جیتا ہے ، گرتا ہے ، ہانپتا ہے اور پھر ناامیدی کے گھنے جنگل سے نکل کر اگلے مرحلے پہ جانکلتا ہے
آدمی آدمیوں سے ملتا ہے
آدمی کافی خانوں میں جاتا ہے
شورزدہ موسیقی ہے
اجنبیت کا میلہ ہے
سامنے والی میز تلک میلوں کی دوری ہے
شوکیسوں میں رکھے کیک زیادہ سوشل ہیں
نظم کا ایک اور بند ہے۔۔
آدمی آدمیوں کو دیکھتا ہے
پیالی بھر مفاد کی مٹھاس کیلئے
شکر کی پڑیا کی طرح
آدمی آدمی کو برت لیتا ہے
خالی بوتل کی طرح
آدمی آدمی کو پھینک دیتا ہے
یہ نظم اور ایسی کئی نظمیں ہمارے ارد گرد مفاد پرستی کے نام پر استوار کئے جانے والی تعلق اور دوستیوں کی کیسی روشن مثال ہے اسی مثال کی روشنی میں انسان کو عدم کا وجود زیادہ سچا نظر آتا ہے دنیا کی ہر سچائی ہمارے وجود کو عدم سے جاملاتی ہے
کتاب کا آخری حصہ سماج کی ناہمواریوں ، وجود، عدم، رشتوں، تکمیل کے رنگ سے بھری نامکمل ساعتوں کے گرد گھومتا ہے تو ایک بار پھر بے ثباتی سے جا ملتا ہے۔ “عریاں بدن میں رات” ایک منفرد شعری تجربہ ہے جس میں شاعر نے اپنے خوابوں کو نظم کیا ہے
تیز تیز قدموں سے ساحل عبور کرتے ہوئے
زمین کی اوپری دیوار کے دونوں طرف پہاڑ اور سمندر بغل گیر ہوئے
کاسنی فضا میں پھیلی دھند کے پیچھے
جہاں پانی نے کروٹ لی
خانہ بدوش بستیاں کپڑے سکھا رہی تھیں
برق انداز جنون کی سیڑھیا چڑھتے ہوئے
چھ مقفل منزلوں تک بچھے زنگ آلود راستے ہمیں روشنی کی اوٹ میں لے گئی
لہراتے سایوں کا سیلاب عریاں بستیوں کا طواف کررہا تھا
ہم نے جست بھری
اور ایک صدی کے فاصلے پر تجسس کی ساتویں منزل دریافت کی!
افسوس!
خوش رنگ طمانیت کے صحن میں تم نے غلیظ جانور باندھ رکھے تھے
ہم چاند کے گدلے ساحل پر پاو¿ں پھیلا کر بیٹھ گئے
زمین کا عکس پانی میں دھندلا گیا !!!
زاہد اِمروز کا پہلا مجموعہ ”خودک±شی کے موسم میں“ 2009ءمیں شائع ہوا۔ 2012ءمیں پابلو نیرودا کی نظموں کا ترجمہ ”محبت کی نظمیں اور بے بسی کا گیت“ شائع ہوا۔ اِمروز کی اپنی نظموں کا دوسرامجموعہ ”کائناتی گرد میں عریاں شام“ 2013ءمیں ”سانجھ پبلشرز“ لاہورسے شائع ہوا۔2021ءمیں اِمروز نے کارلو رویلی کی کتاب ”فزکس کے سات اسباق“ کا ترجمہ کیا جسے مشعل بکس، لاہور نے شائع کیا۔
جلے ہوئے آسماں کے پرندے “ ایک مکمل اور طویل ناول جیسی ہے زندگی کے تمام رنگوں سے بھرپور ، کوئی رنگ کسی پہ حاوی نہیں ہے مگر ہر رنگ تیزی سے گزررہا ہے۔ نظموں میں قائم رہنے والا اثر ہے اور یاد رکھی جانے والی کیفیات ہیں
پابلو نیرودا کی طرح محبت، وقت، تنہائی اور ویرانی ہے . زاہد امروز سفر میں اور مختلف ملکوں میں رہے ہیں اسی لئے تہذیبی اور ادبی تنوع کی بے شمار صورتیں دیکھی جاسکتی ہیں مگر اردو اور مشرقی تہذیب کا اثر سب سے نمایاں ہے جو کہ ایک قدرتی امر ہے۔ ایک شاعر اور ایک سائنسدان دو مختلف نوعیت کے لوگ ہوتے ہیں مگر یہاں اس نوعیت سے یہ فائدہ ہوا کہ شاعر مکمل ہوش و حواس میں ہے، اپنی نظم کے ہر مضمون اور اس کے اثرات سے واقف، اپنی ہر کیفیت سے مکمل باعلم، اپنے وقت کو منظم طریقے سے مینیج کرتا ہوا اپنی نظم کے ارتقائی سفر پر پوری مضبوطی سے گامزن ہے ان کے اندر کا تجسس یقیناً تیزرفتاری سے ہر مرحلہ explore کرکے نظموں میں ڈھالتا جائے گا اس سفر کیلئے ڈھیر ساری نیک تمنائیں۔
کتاب حاصل کرنے کیلئے رابطہ کریں۔
سانجھ پبلیکیشنز:
Book Street, 46/2, Mozang Road, Lahore.
facebook.com/SanjhPublications
sanjhpk@yahoo.com, sanjhpks@gmail.com
To order book for delivery, please contact:
0092 333 4051741

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں