امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 528

جمہوریت اور ”جبرِ اکثریت“

جمہوریت کا حامی اور ممکنہ طور پر انتخابات میں رائے دہندہ ہونے کی حیثیت سے، میں لازماً جمہوریت کا حامی ہو ں اور اس کی افادیت کا پر چارک ہوں۔ بالخصوص جب رائے کا استعمال کسی بھی ملک میں اور کسی بھی قسم کے جمہوری نظام کے تحت اہم حکومتی اداروں کے چنا کے لیئےہو رہا ہو۔خواہ وہ نظام پارلیمانی ہو یا صدارتی ہو۔ جمہوری نظام کی خوبیاں اس کی ان خامیوں سے کہیں زیادہ ہیں جن کی دلیل پیش کرتے ہوئے اکڑ سیاسی معاملات کے مبتدی ، اس کو رد کرتے ہیں اور سرّیہ یا اعلان کسی بھی قسم کے آمرانہ نظام کا پرچار کرتے ہیں۔ یہاں صدارتی یا پارلیمانی نظام پر بحث میرا مقصد نہیں ہے۔
کسی بھی چھوٹی یابڑی جمہوریت میں مثئلاً امریکہ یا بھارت میں یا سری لنکا اور ماریشیس میں، حکومتی انتخابات کے وقت مجھے ’ اکثریت کے جبر‘ کا خوف پریشان کرتا ہے۔ جمہوری انتخابات کے بار ے میں یہ دلیل لائی جاتی ہے کہ انتخابات کے بعد اکثریت حاصل کرنے والی جماعت یا فرد ’من مانی ‘ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ یہی ’جبرِ اکثریت ‘ جمہوریت کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ اس کے خطرات اور اس کے جمہوری نظام پر سخت مضر اثر کے بارے میں ہر بڑی جمہوریت کے دانشوروں نے اپنے ملکوں میں قیامِ جمہوریت اور آئین سازی کے دوران بھی اور آئین سازی کے بعد بھی ’جبر ِ ِ ِ اکثریت ‘کا تدارک کرنے کی ترکیبیں بھی بتایئں اور ان کے نفاذ کی کوشش بھی کی۔
اس کی واضح ترین مثال یہ ہے کہ ہر اہم جمہوری ملک میں ریاست اور مذہب کی علیحدگی کی حتیٰ الامکان کوشش کی جاتی ہے۔ کیونکہ ہر ملک میں مذہبی اکثریت اپنے سے مختلتف عوام کو آزادیاں دینے کے خلاف جتن کرتی ہے۔ یوں نہ صرف اکثریتی مذہب کے پیرو کاراپنے عقائد دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، بلکہ قانون سازی پر بھی اپنے عقائد کو لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مذہب کی ریاست سے علیحدگی کے بعد ’جبرِ اکثریت‘ سے محفوظ رہنے کے لیئے، ہر ملک کے دستور یا آئین میں، بالخصوص ، مقننہ ، عدلیہ، اور انتظامیہ کو ایک دوسرے سے آزاد رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پھر مقننہ کو بھی دو ایسے ایوانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جہاں ایک ایوان ، دوسرے ایوان میں پیش کردہ قانون سازی اور آئینی ترمیم پر نظرِ ثانی کرتا ہے، اور دونوں ایوانوں کا اکثریتی فیصلہ ہی کسی ترمیم کو یا قانون کو نافذ کرتا ہے۔یہ فیصلے آئین کی روح پر عمل کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔
ان فیصلوں پر مزید نظرِ ثانی یا آئین کی تفہیم کا حتمی حق ہر ملک میں ایک اعلیٰ ترین عدلیہ کو سونپا جاتا ہے۔ اس عدلیہ کے منصفوں کے چناﺅ کے سخت ترین اصول طے کیئے جاتے ہیں ، تاکہ صرف قابل ترین اور معروضی منصف ہیاقوام کی قسم پر حتمی فیصلے کر سکیں۔ اسی طر ح ہر ملک کی انتظامیہ ، مقننہ اور عدلیہ سے مختلف ہونے اور تقریباً خود مختار ہونے کے باوجود ، مقننہ کے بنائے گئے قوانین پر عمل کرنے اور عمل کروانے کی پابند ہوتی ہے۔ انتظایہ کا سربراہ آئین میں طے شدہ اصولوں کے تحت صدر یا وزیر ِ اعظم ہوتا ہے۔ صدر کا انتخاب یا تو براہِ راست ہو سکتا ہے، یا بالواسطہ۔ وزیر ِ اعظم کا انتخاب ہمیشہ بالواسطہ ہوتا ہے اور ملکوں کے ایوانِ زیریں میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کے نمائندہ کو وزیرِ اعظم منتخب کیا جاتا ہے۔
مندرجہ بالا معروضات، آپ کو مبتدیانہ لگ سکتی ہیں ، لیکن ان کے بیان سے بعض اصولوں کا اعادہ ہوتا ہے۔ ان اصولوں پر صرف مثالی اور دیانت دارانہ عمل ہی ، جمہوریت کو اکثریت کے جبر سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
لیکن عملی طور پر ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ عام طور پر ہر سیاسی جماعت ، صدر، یا وزیرِ اعظم صرف اس اکثریت کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جس نے انہیں منتخب ہونے میں مدد دی۔ کوشش یہ کی جاتی ہے کہ مقننہ کے ہر ایوان میں صرف ایک جماعت یا ایک شخص کے حمایتیوں کو خوش رکھنے کی کوشش کی جائے۔ اسی طرح کوشش کی جاتی ہے کہ عدلیہ میں بھی وہ منصف جا پایئں جو سیاسی جماعتوں، یامقتدر افراد کے خیالات کے حامی ہوں۔ اور یوں عدالت میں بھی یک فکری اکثریت قائم ہو سکے۔ اسے طرح انتظامیہ کے چناﺅ کے وقت معروضی اصولوں سے گریز کیا جاتا ہے۔ اگر حکومت کے ہرستون میں ہم خیال اکثریت نافذہو جائے تو مذہبی اور سیاسی اقلیتوں، یا اختلاف رائے رکھنوں کے حقوق ’جبرِ اکثریت ‘ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس پر قد غن لگانے کے لییے دورِ صدارت پر تو پابندی لگائی جاتی ہے، لیکن سیاسی جماعت اور وزیرِ اعظم کے چناﺅ پر یہ پابندی نہیں ہو تی۔
دورِ حاضر میں ، دنیا کی اہم ترین اور بڑی جمہوریتوں میں ’جبرِ اکثریت ‘ کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ امریکہ میں صدارتی اختیار کے تحت اور ایوانِ بالا میں اکثریت کے تحت ، امریکی سپریم کورٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ہم خیال قدامت پرست افراد کو اعلیٰ منصفی کے لیئے چنا جارہا ہے۔ اس کے لیئے خود ایوانِ بالا کے نظام میں یک طرفہ تنظیم کی گئی ہے۔ اور اب ایسے فیصلے ہونے کا امکان بڑھ رہا ہے کہ اقلیتوں کو حاصل کئی حقوق سلب ہو جایئں گے۔ اسی طرح دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں بھی موجود ہ وزیرِ اعظم مودی کے دوبارہ منتخب ہونے کے امکانات ہیں۔ وہ ہمیشہ ہی بھارت کے قدامت پرست عقائد کا پر چار کرتے رہے ہیں ، اور اقلیتوں کے خلاف ایسا کردار ادا کرتے رہیں جو انسان دشمنی پر مبنی ہے۔ اس کردار کی بنیاد پر ان پر شدید الزامات بھی عائد ہوتے رہے ہیں۔ یہ بھی ہو ا ہے کہ بھارت کی عدالتیں بھی بعض ایسے فیصلے کرتی رہی ہیں جو بادی النظر میں متعصبانہ لگتے ہیں۔ غرض یہ کہ جمہور ی نظام اپنی تمام خوبیوں کے باجود، لازماً،’جبرِ اکثریت ‘ پر قابو پا کر ہی فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ ایسا صرف وہ کر سکتے ہیں جو معروضی جمہوریت پر معروضانہ عمل کی قوتِ ارادی کے حامل ہوں۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں