نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 368

”جمہوریت“ مجرموں کے شکنجے میں۔۔۔؟

اس وقت پاکستانی سیاست میں ایک ہل چل مچ چکی ہے۔ سینٹ الیکشن اور اس کے بعد چیئرمین سینٹ کے انتخابی عمل کا کام پوری طرح سے کرپشن کے گرد گھومتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ملکی سیاست اور طرز حکمرانی کرپشن، منافقت، ریاکاری اور بلیک میلنگ کے گرداب میں دھنستی ہوئی جارہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا حیران، پریشان اور چیخنا، چلانا ایک فطری امر ہے جو کچھ ہو رہا ہے وہ غیر متوقع نہیں لیکن جمہوری کم مگر اخلاقی لحاظ سے کسی بھی طرح سے کم نہیں۔ تجزیہ نگار عمران خان سے یوسف رضا گیلانی کا موازنہ کرواکے گدھے گھوڑے کے فرق کو ایک طرح سے ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اچھائی اور برائی کے اس فاصلے کو ختم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جسے مہذب معاشرے میں ہمیشہ دور کرنے کو ہی پسند کیا جاتا ہے لیکن پاکستان کے جمہوریت کی طرح سے وہاق کے تجزیہ نگاروں اور تبصرہ نگاروں کا بھی اپنا ایک نقطہ نظر اور مائینڈ سیٹ ہے جو اس وقت پوری طرح سے اپوزیشن پارٹیوں کے بیان بازیوں میں صحافت سے زیادہ ان کی وکالت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں چاہے ان کا تعلق پرنٹ میڈیا سے ہو یا پھر الیکٹرونکس میڈیا سے ہو، اس وقت سب کے سب عمران فوبیا کا شکار ہو گئے ہیں۔ ہر کسی کو عمران خان کی شکل میں اپنی موت نظر آرہی ہے، اس لئے اپنی جانب بڑھنے والی اس موت سے چھٹکارا پانے کے لئے ہی وہ عمران خان کی حکومت کو گرانے کے لئے ایک دوسرے کو سہارا دے رہے ہیں وہ سب کے سب اس وقت اپنی بقاءکی جنگ لڑ رہے ہیں اور ان کی مالی مدد وہ عرب ممالک بھی کررہے ہیں جن کی دال عمران خان کے ہوتے ہوئے نہیں گل رہی ہے یا پھر دوسرے معنوں میں عمران خان انہیں ظل سبحانی کہنے کو تیار نہیں، اسی وجہ سے انہوں نے بھی دل کھول کر اپوزیشن اتحاد کی مالی مدد کی ہے سکی وجہ سے سینٹ کے اس الیکشن میں اراکین اسمبلی کا ضمیر خریدنے کے لئے انہیں منہ مانگی رقم دی گئی، یہ رقم یوسف رضا گیلانی کے علاوہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے لئے بھی ان اراکین کو دی گئی تھی لیکن بحالت مجبوری وہ اراکین کسی دباﺅ کی وجہ سے پورا کام نہ کرسکے۔
مریم بی بی کا انتہائی غصے میں یہ کہنا کہ عمران خان نے تلوار کے زور پر اراکین سے اعتماد کا ووٹ لیا ہے۔ یہ بات ہر لحاظ سے درست ہے، اس لئے تو مولانا فضل الرحمن سمیت پوری پی ڈی ایم ہی چراغ پا ہے کیونکہ ان کا بنا بنایا گیم ہی بقول ان کے اناڑی نہ تجربہ کار سیاستدان کم کرکٹ کے کھلاڑی عمران خان نے بگاڑ کر کے رکھ دیا ان کے خریدی گئے گھوڑے ان کے بجائے عمران خان کے میدان میں دوڑنے لگے، یہ ان کے لئے افسوسناک اور قیامت سے کم نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔؟
اب عمران خان نے اعتماد کا ووٹ لے لیا، ایک طرح سے عمران خان نے پوری اپوزیشن کے کلیجے پر چھرا چلا لیا جس کی وجہ سے ان کی چیخیں نکلنا قدرتی امر ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ علی بابا اور چالیس چور اپنے ایک کھلاڑی یوسف کو سینٹ کا چیئرمین کس طرح سے بنوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اس لئے کہ ہر کسی نے اپنی تجوری کا منہ اس معرکہ کو سر کر لینے کے لئے کھول دیا ہے، یہ مقابلہ حرام خوروں کا عمران خان سے کم اور ریاست پاکستان سے زیادہ ہے، ایک بار پھر وہ سب مل کر ریاست کو لوٹنے، اسے تباہ و برباد کرنے کے لئے اس پر حملہ آور ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ یوسف کا حال اور ماضی سب کے سامنے ہے کہ کس طرح سے 1981ءکا ایک معمولی بلدیاتی سطح کا سیاستدان لکھ پتی سے کروڑ پتی بھی نہیں بلکہ کھربوں پتی بن گیا اور بہت سارے ان کے کارنامے ریکارڈ پر موجود ہے اور سب سے بڑا کارنامہ ان کا کوالیفائیڈ کیا جانا ہے، وہ کوالیفائیڈ بھی جمہوریت کی یا پھر ملک کی خدمت کرنے کی وجہ سے نہیں ہوئے تھے بلکہ کسی بڑے لٹیرے کو لوٹے گئے 60 لاکھ ڈالر کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے اپنے حلف کی خلاف ورزی دوسرے معنوں میں ملک سے وفاداری نہ کرنے کی پاداش میں ہوئے تھے ایک اس طرح کا سیاستدان کس طرح سے کس منہ سی سینٹ جیسے بڑے جمہوری ادارے کارکن اور اس کے بعد اس کا چیئرمین بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ قانون شکن کس طرح سے قانون سازی کے سب سے بڑے ادارے کا سربراہ بننے کی بھاگ دوڑ کررہا ہے اگر غلطی سے بھی اس طرح کا کوئی شخص اس طرح کے ادارے کا سربراہ بن جاتا ہے تو پھر کیا ہوا۔ قانون شکنوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے محترک ہو گا یا پھر وہ ان کے خلاف ہونے والی کارروائی میں سیسہ پلائی دیوار بننے کا کردار ادا کرے گا۔۔۔؟
کب تک جمہوریت کی آڑ میں قانون شکنی کا یہ کاروبار چلتا رہے گا۔ کب تک لٹیرے اور عادی جرائم پیشہ افراد جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر قومی اسمبلی اور سینٹ کے مقدس ایوانوں کے تقدس کی پامالی کا باعث بنتے رہیں گے۔ کب تک قانون شکن، قانونی اور غیر قانونی طریقے سے قانون کو توڑنے اور موڑنے کا یہ کھیل جاری رکھیں گے۔ معزز عدالتوں نے کیوں خاموشی اختیار کر رکھی ہے، وہ لب کشائی کیوں نہیں کرتے، وہ کیوں لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں، وہ کیوں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، با اختیار لوگوں کو عام لوگوں کے مقابلے میں اس سارے معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، اگر وہ اس ملک سے مخلص ہیں، یہ کوئی جمہوریت نہیں کہ دو جمع دو چار کردیا جائے، جرم کو سیاست سے الگ کئے بغیر حقیقی جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکتی۔ عمران خان اور ان کی حکومت کے پس پردہ قوتوں کو اس جانب غور کرنا چاہئے۔ مصلحت کی چادر کو آگ لگا دیں اور حقیقت کا سامنا کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں