امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 380

جنرل مشرف کی آئین سے غداری اور سزا

ہم اس تحریر کے آغاز میں یہ واضح کر دیں کہ ہم بذاتِ خود سزائے موت کے خلاف ہیں۔ بالکل ان عزت ماب منصف کی طرح جنہوں نے جنرل مشرف کو غدار تو قرار دیا ہے لیکن ان کو دی گئی سزائے موت سے متفق نہیں ہیں۔ صرف ا س لیئے کے وہ کسی کے لیئے بھی سزائے موت کو غلط جانتے ہیں۔ ہم نے اس موقف کا اظہار جب بھی کیا تھا جب پاکستان میں سزائے موت پر عمل کے تعطل کو ختم کیا گیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں سزائے موت موجود ہے، اور اس پر توہین ِ مذہب و رسالت، غداری، اور بھیانک جرائم سزاکے لئے عمل بھی کیا جاتا ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم جنرل مشرف کی غداری پر بات کریں، یہ مناسب ہے کہ ہم موجودہ وزیرِ اعظم کے اس موضوع پر خیالات کا اعادہ کرلیں۔ کیونکہ وہ گرگٹ کے رنگ کی طرح اپنی بات بدلتے ہیں اور اس پر نادم بھی نہیں ہوتے۔ اب سے چند سال پہلے انہوں نے جنرل مشرک کے بارے میں کہا تھا کہ،” جنرل مشرف نے غدار ی کی، انہوں نے ہنگامی حالت نافذ کی جسے سپریم کورٹ نے غلط قرار دا، اور پھر ججوں کو فوج کے ذریعہ نکلوایا۔ جو بڑی غداری ہے جس کی سزا موت ہے۔“ ان کا یہ بیان ٹیلی ویڑن کے ریکارڈ میں ہے۔ آپ اسے یہاں سن سکتے ہیں:
http://rmtvlondon.com/index.php/video/106-18-12-19
اور اب ان ہی عمران خان کی حکومت ہے جو مشرف کی سزا کے خلاف اپیل کرنے کا ارداہ رکھتی ہے ، حتیٰ کہ ان جج کے خلاف بھی کاروائی کرنا چاہتی ہے جنہوں نے تفصیلی فیصلہ لکھا ہے۔ کیا اس پر کوئی تعجب ہے کہ ان کی حکومت کے کئی وزرا جنرل مشرف کے بھی وزیر تھے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ عمران خان کے وزیرِ قانون اور اٹارنی جنرل خود جنرل مشرف کے وکیلِ دفاع تھے۔
جہاں تک جنرل مشرف کی غداری کی سزا کا معاملہ ہے، مقدمہ کے دوران انہیںمفرور ملزم قرار ددیا گیاتھا۔ جب وہ خود پاکستان کی سپریم کورٹ کی بار بار کی تنبیہ کے بعد بھی چھ بار اپنا بیانِ حلفی داخل کرنے سے گریز کرتے رہے تو خود سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ انہوں نے دفاع کا حق کھودیا ہے۔ اور اب ذیلی خصوصی عدالت ان کے مقدمہ کی کاروائی مکمل کرے۔ اس سے پہلے اس مقدمہ کہ ایک جج نے معذوری کا اظہار کیا تھا اور مقدمہ سے علیحدگی اختیار کر کی تھی۔ آخری خصوصی عدالت میں صوبائی اعلی عدالت کے تین جج شامل تھے۔ ان کے سربراہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ جو بعض آئینی معاملات پر اہم فیصلے دے چکے تھے۔
جب اس مقدمہ کا ابتدائی حکم سنایا گیا اور جنرل مشرف کو آئین اور قانون کی رو سے غدار قرارد دیا گیا، اورسزائے موت دی گئی تو حیران کن پر فوج کی طرف سے فیصلہ کے خلاف اور مشرف کی حمایت میںسخت بیان آیا۔ یہ عمل اور یہ بیان ہر اخلاقی، قانونی، نظام کی صریح خلاف ورزی تھی۔ فوج آئین کے طابع حکومت کا ایک ذیلی ادارہ ہے جو وزارتِ دفاع کے تحت ہے۔ اسے اس قسم کے براہِ راست بیانات دینے کی اجازت نہیں ہے۔ مقدمہ کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد اور بھی سخت بیانات آئے، حتٰی کے ججوں کے خلاف بالخصوص عدالت کر سربراہ کےخلاف ریفرینس داخل کرے کی بات ہونے لگی۔ فوج کے حمایتی صحافیوں اور ٹیلی ویڑن دانشوروں نے پورے فیصلے پر بات کرنے کے بجائے فیصلہ کے ایک حصہ پر شور مچا دیا گیا۔ اس میں لکھا گیا تھاکہ ” حکومت پر لازم ہے کہ ان کی سزا پر عمل کرے اور اگر وہ مردہ حالت میں بھی پائے جایئں تو ان کی لاش کو چوک ہر لٹکا ئی جائے تاکہ ایسے ہر مجرم کو تنبیہ ہو سکے۔“ ایسا فیصلہ لکھے جانے پر کوئی تشویش نہیں ہونی چاہیئے کیونکہ پاکستان میں عوامی پھانسی دی جانے کی روایت موجود ہے اور گزشتہ سال اسلامی نظریاتی کونسل نے بر سرِ عام پھانسی کو شریعت کے مطابق قرار ددیا تھا۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی اور انسانی حقوق کے عمل پرست بر سرِ عاام سزائے موت کے خلاف رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مشرف کو غدار قرار دیا جانا اور ان کی سزائے موت پاکستان کے آئین اور موجود قوانین کے مطابق بالکل درست ہے۔ اگراس فیصلہ کے خلاف اپیل کی بھی گئی تو یہ فیصلہ قائم رکھا جائے گا۔ ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ اس میں سے لاش کو لٹکانے والے حصہ نکال دیا جائے۔ لیکن اگر آپ قانون پر اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے پر غور کریں تو دیکھیں گے کہ برسرِ عام پھانسی کی اجازت ہے۔ ظاہر ہے کہ پھانسی کے بعد لاش ہی لٹکتی ہے۔ اصلِ حقیقت یہ ہے کہ اس فیصلے سے ان کو دُکھ پہنچا ہے کہ جو بارہا آئین توڑ کر، قانونی حکومتوں کا تختہ الٹ کر، پاکستان کو خراب تر کرتے رہے ہیں۔ یہ کون ہیں یہ آپ خود فیصلہ کریں۔ اب فر ق صرف یہ ہے کہ اب سے پہلے اس تخریب کاری اور آئین شکنی کو عدالت کی پناہ مل جاتی تھی۔ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد عدالتوں نے آئین شکنی کو تحفظ دینے سے پرہیز کیا ہے۔
مستقبل قریب میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ ہر ادارہ اس فیصلہ کو ایک شخص کی غداری مانے۔ اور اس میں کسی ادارے کی توہین تلاش نہ کرے۔ تاکہ آئندہ ہر شخص اس غداری سے پرہیز کرے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں