امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 387

حضرت داﺅدؑ اور ایڈورڈ سعید کے ہاتھوں میں پتھر

گزشتہ دنوں فلسطین کی تازہ ترین صورتِ حال کے بارے میں سوچتے پڑھتے ، دو منظر ذہن میں ابھرے۔ جن کا تعلق تاریخی مذہبی اساطیر سے بھی ہوئے اور موجود زمانے سے بھی۔ ایک وہ منظر ہے جس میں قدیم زمانے کے فلسطینیوں کے ظلم کے نتیجہ میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی جنگ میں دیو قامت فلسطینی جنگجو، جالوت دست بدست مقابلہ کے لئے للکارتا ہے۔ اسرایئلیوں کے بادشاہ طالوت کی طرف سے نوجوان داﺅدؑ، آگے بڑھتے ہیں۔ بادشاہ انہیں زرہ بکتر دیتا ہے، وہ اسے نظر انداز کرکے ایک بڑی سے غلیل میں پتھر باندہ کر جالوت کے سر کو نشانہ بناکر اسے قتل کر دیتے ہیں۔یہ صرف ظلم و استبداد کے خلاف ہی جنگ نہیں تھی، بلکہ اس میں فلسطینیوں اور اسرایئلیوں کے عقائد اور مذاہب میں بھی مقابلہ تھا۔ اس کے بعد وہ بنی اسرائیل کے عظیم بادشاہ بنتے ہیں۔ ان کے ہاتھو ں جالوت کے قتل کا منظر ، ممتاز ترین مصوروں اور مجسمہ سازوں نے اپنے شاہ پاروں میں امر کردیا ہے۔
ہزاروں سال کے بعد انقلاباتِ زمانہ ایک نیا منظر بناتے ہیں۔ مختلف زمانوں اور صدیوں پر محیط عرصوں میں بنی اسرائیل کا زوال ہوتا ہے۔ ان کا نگر یروشلم سو بار لوٹا جاتا ہے اور انہیں ملکوں ملکوں دربدر ہو کر ذلت اٹھانی پرتی ہے۔ ان پر یورپی قومیں اور ہٹلر ظلم توڑتا ہے۔ اور وہ اس ظلمِ عظیم کا شکار ہوتے ہیں جسے ہولوکوسٹ کہا جاتا ہے۔
قدیم فلسطینی کنعان کی سر زمین پر موجود تو رہتے ہیں، لیکن ان پر حکمرانی کرنے والوں میں، وقتاً فوقتاً، رومن ، عیسائی، عرب، اور ترک سلطنتیں شامل ہو جاتی ہیں۔ ان کے مذہب بدلتے رہتے ہیں۔ یوں کنعان کی سر زمین پر جو اب فلسطین کہلاتی ہے، مخلوط ثقافتیں پروان چڑھتی ہیں۔
وقت پھر کروٹ لیتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ پارہ پارہ ہو جاتی ہے۔ بنی اسرائیل جو یہود بھی کہلاتے ہیں، دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ اور امریکہ کی مدد سے فلسطین کو کاٹ کر ہزاروںسالوں کے بعد اسرائیلی مملکت قائم کر لیتے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ پورا یورپ ان کے انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ اب ہولوکوسٹ، ظلم اور انسانی حقوق کی پائمالی کا استعارہ بن جاتا ہے۔ مشرقِ وسطٰی، بحیرہ روم، اور نہر سوئز کی عالمی جغرافیائی اہمیت کی وجہہ سے ساری عالمی طاقتیں اسرائیل کے ساتھ اپنے تزویری اتحاد قائم کرتی ہیں اور اس کے تحفظ کی ضامن بن جاتی ہیں۔
دوسری جانب فلسطین میں آباد مسلمان، عیسائی اور غیر اسرایئلی قومیں جبر و استبداد کا نشانہ بنتی ہیں۔ ان کو در بدر کیا جاتا ہے۔ قید و بند ان کا مقد ر بنتی ہے۔ انسانی حقو ق کی پامالی کے ساتھ ساتھ ان کو قدم قدم پر ذلتوں رسوائی اٹھانا پڑتی ہے۔ اقوامِ عالم ان کے حقوق کو نظر انداز کرتی ہیں کیونکہ یہ حقوق عالمی طاقتوں کے مفادات میں شامل نہیں ہوتے۔
اسرائیل کے قیام کے تقریباً سولہہ سال بعد فلسطین کی آزادی کی دو اہم تحریکیں ابھرتی ہیں۔ ایک پی ایل او، اور دوسری پی ایف ایل پی۔ پی ایل او کے رہنما ایک مسلمان یاسر عرفات تھے۔ اور پی ایف ایل پی کے رہنما جورج حباش تھے ، جو ایک عیسائی تھی۔ یوں فلسطینی حقوق اور آزادی کی جدو جہد میں مذہب سے قطع نظر مختلف حریت پرست یکجا تھا۔ انہو ں نے کبھی بھی اسرائیل کے خلاف کسی مذہبی جہاد کا اعلان نہیں کیا۔ بلکہ ساری جدو جہد مساوی حقوق اور مساوی انسانی حرمت کی بنیاد پر جاری رکھی۔ ان کی جدو جہد سیاسی بھی تھی اور وقتاً وقتاً پر تشدد بھی۔ یہ اسرائیل کے قیام کی تحریک ہجانہ ہی کی طرح تھی جو تشدد کو اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کرتی تھی۔
اسرائیلی کے اتحادیوںنے فلسطینی آزادی کی تنظیموں کی سیاسی حیثیت کو نظر انداز کرکے صرف ان کی تشدد کی کاروایﺅں کا چرچا کیا اور انہیں دنیا بھر میں دہشت قرار دیا۔ ایک مدت تک عالمی طاقتیں ان کے حقوق کی انکاری تھیں۔ بعد میں جب پی ایل او نے اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرتے ہوئے دو ریاستی حل کو ما ن بھی لیا تب بھی ان سے کیئے گئے معاہدے بالائے طاق رکھے گئے، اور فلسطینیوں کی شدید حق تلفی اور استبدا جاری رہا۔ اس کے نتیجہ میں اسی کی دہائی میں ایک تحریک شروع ہوئی جسے فلسطینی انتفاضہ کہتے ہیں۔ اس کے معنی استبداد کا جوا ، اتارپھینکنا بھی ہوتے ہیں۔ اسی انتفاضہ میں ہم وہ منظر دیکھتے ہیں جب ممتاز ترین فلسطینی دانشور ایڈورڈ سعید، جبر کی اسرائیلی علامت پر پتھر پھینکتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ ایڈورڈ سعید کے نام سے واقف تو ہو ں گے۔ اگر نہیں تو ان کا مختصر تعارف یہ ہے کہ وہ ایک عیسائی نڑاد فلسطینی دانشور تھے۔ جو ظلم کے خلاف مزاحمت کاروں کی صفِ اول میں شامل تھے۔ وہ امریکہ میں مقیم تھے اور ان کی بعض کتابیں اور استعماریت کے خلاف ان کی فکر کلاسیک کا درجہ رکھتی ہیں۔ وہ یاسر عرفات اور دیگر فلسطینی رہنماﺅں اور پاکستانی دانشوروں کے بھی دوست تھے جن میں فیض احمدفیض، اقبال احمد اور آغا شاہد علی شامل ہیں۔
ایڈورڈ سعید کا ایک قول ہے کہ ”آپ کسی اور کو مسلسل ظلم کا نشانہ اس وجہ سے نہیں بنا سکتے کہ آپ خود بھی ظلم کا شکار رہے تھے۔“ ان کا ایک اور اہم قول ہے کہ ”اسرائیل ہماری نااہلی اور ناکامی کا پیمانہ ہے۔ ہم نے سالوں کسی عظیم رہنما کا انتظار کیا، لیکن کوئی نہیں آیا۔ ہم نے جنگ میں کسی بڑی فتح کی توقع کی لیکن ہم نے ہمیشہ شکست کھائی۔ ہم نے بڑی طاقتوں کی مدد کا انتطار کیا جن میں امریکہ اور روس دونوں ہی شامل ہیں، لیکن کوئی آگے نہیں بڑھا۔ ایک چیز جس کی ہم نے کبھی کوشش نہیں کی وہ سنجیدگی کے ساتھ خود پر اعتماد اور خود انحصاری تھی۔ جب تک ہم ایسا نہیں کریں گی ہم خود اختیاری حاصل کرنے اور استبداد سے آزادی حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے۔“
شاید یہی وجہہ تھی کہ ایڈورڈ سعید نے بھی حضرت داﺅد کی طرح ہاتھ میں پتھر اٹھا کر جارح کو للکارا تھا۔ وہ ہمیں یہ بھی سکھا گئے کہ اسرائیلی سے حقوق حاصل کرنے کی جنگ کوئی مذہبی جنگ نہیں ہو سکتی بلکہ ایسا صرف رنگ و نسل و مذہب سے بالا تر ہو کر انسانی حقوق کی بنیا د پر ہی ہو سکتا ہے۔ اور یہ کہ دانشور کا اصل منصب ظلم و استبداد کے خلاف فکری اور عملی مزاحمت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں