دوست ۔ متاع خاص 223

دوست ۔ متاع خاص

جب کوئی پرانا دوست چپکے سے برسوں بعد مل جائے اور یادوں کے تار پھر سے بج اٹھیں اور وہ لمحہ ماضی کو کھنگال کے رکھ دے تو سجدہ شکر بجا لانے کو دل کرتا ہے کیونکہ وہ پرانے دوست ایک بار پھر سے زندگی کے سفر میں ہمارے ہمراہ چل کر اداسیوں اور اکیلے پن کے احساس کی گٹھری اپنے سر پر اٹھا لیتے ہیں اور متاع جان بن جاتے ہیں۔ ایسی ہی میری ایک یونیورسٹی کلاس فیلو چند روز پیشتر فیس بک کی بدولت مجھے تلاش کرتی مدتوں بعد آملی پھر زمانہ طالب علمی کے گزرے دنوں اور دوسرے ہمعصر ساتھیوں کا تذکرہ کرتے کرتے کب وقت گزرا پتہ ہی نہ چلا۔ میری وہ دوست امل مسعود اپنے نام کے معانی لفظوں میں چھپے احساسات جذبات کو خوبصورت پوشاک پہنا گئی اور سمجھا گئی کہ پرانے دوست بازاروں میں ملتے۔ وہ کبھی دور نہیں ہوتے ستاروں بھری رات میں آسمان پر دکھائی دیتے ہیں۔ کسی کے چہرے کی خوشی میں نظر آجاتے ہیں۔ بس دل کی آنکھ سے تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ یہ پرانے رفقاءکار ہماری صدیوں کی تھکن اتار دیتے ہیں۔ روح میں اتر جاتے ہیں۔ جینے کی آس بن جاتے ہیں۔ اپنے خیال کی خوشبو سی ہمارے بے رنگ بے ترتیب دنیا کی رونق بن جاتے ہیں، ماضی کے دریچوں سے جھانک کر مستقبل کی روشنی کو ہمارے ارادوں کی تکمیل کا ذریعہ بنا دیتے ہیں۔ یہ دوست ہی تو ہیں جو بن مول ہمارے وجود کو مہکا دیتے ہیں۔ اپنی محبتوں سے۔ اپنے سچے جذبوں سے۔
قدر کریں اللہ کے ان تحفوں کی۔
اے اللہ ہمارے سب دوستوں کو سلامت رکھنا، آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں