نئی نسل کے لئے بے حسی کا پیغام 422

دھرنے کا 13 واں روز

مولانا فضل الرحمن اور حکومت کے درمیان جاری جنگ آخری مراحل میں داخل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ مولانا نے موقف اختیار کیا ہے کہ ایک جانب تو کرتارپور راہداری کو جس مقصد کے لئے کھولا گیا ہے وہ ناقابل قبول ہے اور سکھوں کو سامنے رکھ کر دراصل قادیانیوں کے پاکستان میں داخلہ کی راہ ہموارکی جارہی ہے اور اس پورے معاملہ کے پیچھے قمر جاوید باجوہ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ حکومت ناجائز ہے اور کسی کا باپ ہم سے اسے جائز نہیں کہلوا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آئین، جمہوریت اور اصولوں کی جنگ لڑنی ہے۔ مولانا نے حکومت کو دو روز کا وقت دیا ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف قمر جاوید باجوہ استعفیٰ دیں۔ اس لئے انہوں نے ثابت قدم رہنے کا اعلان کیا ہے اور کارکنوں سے کہا ہے کہ پلان اے کے ساتھ ساتھ کارکنان پلان بی کے لئے بھی تیار رہیں۔ نظر آرہا ہے کہ مولانا اپنے مقاصد حاصل کئے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کچھ طاقتیں مولانا کے پیچھے ہیں اور یوں 13 روز گزر جانے کے باوجود آزادی مارچ کے شرکاءپرجوش دکھائی دے رہے ہیں۔ پشاور موڑ پر ڈیرا ڈالے آزادی مارچ کے شرکاءپلان اے سے پلان بی کی جانب پیش رفت کے لئے تیار ہیں جس کا اعلان مولانا آج کسی بھی وقت کردیں گے۔ سیاسی مبصرین کے خیال میں 2020ءحکومت کی تبدیلی کا سال ہے۔ آزادی مارچ کے شرکاءکا نظم و ضبط قابل دید ہے کہ یہ دھرنا گزشتہ 13 روز سے پرامن طریقہ سے جاری ہے۔ مولانا نے اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں تشدد سے دور رہنا ہے۔ اپنی قربانیوں کو ضائع نہ ہونے دیں، آپ یہاں ٹھہرے رہیں اور جو کارکن گھروں پر ہیں اب وہ باہر نکلیں اور پلان بی پر عمل کریں۔ مولانا فضل الرحمن نے یہ بھی کہا کہ ہمارے جیسا منظم اجتماع پاکستان کی تاریخ میں کسی نے نہیں دیکھا۔ مولانا کا کہنا تھا کہ دھاندلی زدہ الیکشن سے بننے والی جعلی حکومت کو گھر جانا ہوگا۔ پاکستان میں آمرانہ سوچ بڑھتی جارہی تھی اور قوم کو غلامی کی جانب دھکیلا جارہا تھا۔ ہم نے آئین کو بچانا ہے، ملکی سیاست آج ہمارے گرد گھوم رہی ہے۔ ایوانوں میں بیٹھے ناجائز حکمران اور ان کے کارندے پریشان ہیں کہ کب انہیں گریبانوں سے پکڑ کر باہر نکالا جائے گا۔
مقتدر حلقہ مولانا کے آزادی مارچ کو گہری نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور یہ معاملہ آسانی سے حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ مولانا کا آزادی مارچ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان حکومت کے گلے کی ہڈی بنتا دکھائی دے رہا ہے اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہمارے فوجی جنرل اس بار بری طرح پھنس چکے ہیں۔ ایک اور اہم چیز جو آزادی مارچ میں دیکھنے میں آئی ہے وہ مولانا کے کارکنوں کا غلاف کعبہ لے کر چلنا ہے۔ یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ کارکنان کو اس بات کا بھی غصہ ہے کہ سکھوں کے لئے تو ویزا فیس میں کٹوتی کردی گئی ہے جب کہ حج پر جانے والے مسلمانوں کے لئے یہ کہہ کر قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ہے کہ حج متوسط طقبہ کے لوگ کرتے ہیں۔ یوں مملکت خداداد پاکستان کے آئین کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں اور ہم کسی کو آئین پاکستان سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ خواہ وہ سویلین حکومت ہو یا اسٹیبلشمنٹ۔ بہرحال یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مولانا نے موجودہ سیٹ اپ کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے اور نظر آرہا ہے کہ کچھ تبدیلیاں جلد متوقع ہیں اور آزادی مارچ کامیابی کے بہت قریب ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں