کارنامہ یا ایک نئی جنگ کی شروعات 167

سری لنکا ہم شرمندہ ہیں!

سانحہ سیالکوٹ پر بحیثیت پاکستانی بحیثیت مسلمان ہونے کے جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے اس سانحہ میں ملوث افراد نہ تو انسان کہلانے کے مستحق ہیں اور نہ ہی مسلمان۔۔۔ اس واقعہ کے ذریعے دنیا بھر میں بیک وقت پاکستان اور اسلام کو جگ ہنسائی کا باعث بنایا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل بھی اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ سرکاری مشینری کے پاس نہ تو اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لئے کوئی میکانزم ہے اور نہ ہی اس طرح کے واقعات کے بعد اس میں ملوث افراد کو فوری طور پر پکڑ کر انہیں کڑی سے کڑی سزا دینے کا کوئی مربوط طریقہ کار ہے کہ جسے استعمال کرکے ملک کو اس طرح کی لعنت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پاک کردیا جائے۔
سیالکوٹ جو شاعر مشرق کا شہر ہے اور پوری دنیا میں کھیلوں کے سامان کی تیاری اور فراہمی کے حوالے سے پوری دنیا میں اپنی ایک شہرت رکھتا ہے لیکن بدقسمتی سے پچھلے چند سالوں سے اس پرامن اور تجارتی شہر کو اس طرح کے واقعات کے ذریعے بدنام اور برباد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن اس کے باوجود اس طرح کے واقعات کی روک تھام اور اس کا سدباب حکومت وقت کی اولین ترجیحات ہونی چاہئے یہ جو واقعہ رونما ہوا اس میں اسلام اور اس کی تعلیمات کی جھلک کہاں نظر آتی ہے، کون سے اسلام میں اپنے پیروی نہ کرنے یا اپنے ساتھ کی جانے والی توہین پر اس طرح کی کارروائی کرنے کا کوئی حکم ہے۔ پوری اسلامی تاریخ میں ایسا کوئی ایک بھی واقعہ ڈھونڈ کر نکالیں آپ کو نہیں ملے گا۔ اسلام تو صبر اور امن کا مذہب ہے، ہمارے پیارے نبی کے ساتھ کیا کچھ کفار نے نہیں کیا، انہوں نے کبھی بھی مڑ کر کوئی جوابی کارروائی نہیں کی۔ یہ کون سے نئے مسلمان آگئے جو اسلامی تعلیمات شریعت سے نا آشنا ہیں اور اسلام کے ٹھیکیدار بن کر اپنی عدالتیں خود لگا کر کسی کے ساتھ چاہیں انسانیت سوز سلوک کریں اور اس کے بعد اس پر توہین مذہب کا لیبل چسپاں کردیں۔ خدارا اس درندگی کو قابو میں کریں اس کے ذمہ داروں کو کڑی سے کڑی سزا دے کر نشان عبرت بنا دیں تاکہ آئندہ کسی کو اس طرح کی گری ہوئی حرکت کرنے کی جرات و ہمت نہ ہو۔
ایک سری لنکن باشندہ اپنے ملک بیوی بچوں کو چھوڑ کر روزگار کی تلاش میں پاکستان آیا تھا اور پچھلے دس سالوں سے اس فیکٹری میں کام کررہا تھا اس ماں پر اس بیوی اور بچوں پر کیا گزر رہی ہو گی جب انہیں یہ افسوسناک خبر ملی ہو گی کہ ان کے والد کے ان کے بیٹے ان کے شوہر کے ساتھ ایک اسلامی ملک پاکستان کے مسلمانوں نے وحشیوں سے بھی بدتر سلوک کیا ان کی نظروں میں اسلام اور پاکستان کی کیا تصویر بنی ہو گی، کبھی اس کا بھی کسی نے سوچا ہے؟ بلوہ، دنگا فساد جم غٰیر دہشت کی علامت ہے اس طرح کے بلوے اور جم غفیر کو بننے سے پہلے ہی کچلنے کی تدبیر اختیار کرنی چاہئے اس طرح کے شرپسندوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو پاکستان کے سیدھے سادے عوام کو مذہبی معاملے میں ملوث کرکے ان کے جذبات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں اس سارے معاملے کی اگر پولیس اور حساس ادارے باریک بینی سے تفتیش کریں تو اس طرح کی بہت ساری صورتحال سامنے آسکتی ہے کہ آخر اس فساد کا ماسٹر مائند کون ہے، کس نے اس فساد کو پلان کیا اور کس نے ایک غیر ملکی باشندے کو اس طرح سے ہلاک کروانے کے بعد اس کی لاش کو جلا کر اسلام
اور پاکستان کو پوری دنیا میں بدنام کیا کیونکہ جو واقعہ رونما ہوا وہ فوری اشتعال سے زیادہ باضابطہ منصوبہ بندی کا نتیجہ زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ مقتول سری لنکن باشندے نے بظاہر ایسی کوئی حرکت نہیں کی کہ جس سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہو اس نے کوئی نماز پڑھتے ہوئے ڈانس نہیں کیا اور نہ ہی قرآن مجید کی کوئی بے حرمتی کی اور نہ ہی ہمارے نبی کی شان میں کوئی غلط بات کہی۔ اس کے بعد اس طرح کا واقعہ رونما ہونا اور اس میں کسی بے گناہ کی جان لینا انتہاہی افسوسناک ہے یہ کوئی مذہبی واقعہ نہیں بلکہ درندگی اور دہشت گردی ہے جس میں یقیناً غیر ملکی ہاتھ کے ملوث ہونے کا پورا پورا امکان ہے۔ پولیس اور حساس ادارے اس سارے معاملے کی چھان بین کرتے ہوئے اصل ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لائیں اور حکومت نیشنل ایکشن پلان کی تمام شقوں پر اس کی روح کے مطابق عمل کرے اس طرح کی مذہبی انتہا پسند جماعتوں پر پابندی لگائی جائے جو مذہبی جنونیت کا کارڈ استعمال کرتے ہوئے اس طرح کی صورتحال پیدا کرنے کی عادی ہیں جس طرح کا افسوسناک واقعہ سیالکوٹ میں پیش آیا اس طرح کے مذہبی جماعتوں سے کسی بھی طرح کا سمجھوتہ کرنے کی ضرورت نہیں جن کی وجہ سے سیالکوٹ جیسے افسوسناک واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں