امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 605

سر وِدھیّا کے سائے

کیا ملک چندے خیرات پر چلتے ہیں
گزشتہ دنوں پاکستان کے نو منتخب وزیرِ اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کیا۔ سب سے پہلے تو ہم ان کو اور ان کے حمایتیوں کو مبارک باد دیتے ہیں کہ وہ ایک مسلسل جدو جہد کے بعد اس منزل تک پہنچ پائے۔ ان کے خطاب میں کئی باتیں تھیں جن پر بحث مباحثہ ہو تا رہے گا۔ یہ بحث مباحثہ جمہوریت کا خاصہ ہے۔ اس خطاب کا ایک اہم عنصر عمران خان کی عوا مسے اپیل تھی کہ وہ آگے بڑھ کر ملک کی معاشی ترقی میں حصہ لیں۔ ہر شخص ٹیکس دے تاکہ قومی خزانے کی آمدنی میں اضافہ ہو۔ اس کے علاوہ انہوں نے مختلف بڑے اخراجات کے بارے میں عوام سے مدد طلب کی گویا چندے کا مطالبہ کیا۔
عمران خان نے یہ تو درست کہا کہ پاکستان میں بہت کم لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ چند اندازوں کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا کُل ایک فی صد حصہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔ وہ شاید دنیا کا واحد ملک ہو جہاں ٹیکس دینے والوں کی تعداد اتنی کم ہو۔ کسی بھی ملک کے اخراجات کو پور کرنے کے لیئے ٹیکس لگانا لازم ہوتا ہے۔ وہاں تعلیم ، صحت ، فلاحِ عام، کے لیئے ٹیکس کے بغیر گزارا نہیں ہو سکتا۔ عمران خان نے اپنی اصلاحات کی فہرست میں ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانے کی کوئی بات نہیں کی۔ نہ ہی یہ بتایا کہ ملک میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں اضافہ کیسے ہوگا۔ نہ ہی ملک کے رئیسوں ، سرمایہ داروں ، جاگیر داروں اور صنعت کاروںکے بارے میں کچھ کہا کہ ان سے ٹیکس کس طرح وصول کیئے جایئں۔
انہوں نے چیف جسٹس پاکستان کی اس بات کو بھی دہرایا کہ پاکستان میں بڑے بند بنانے کے لیئے عوام سے چندہ کی درخواست کی جائے۔ عمران خان کو شاید چندے کی بات بہت پسند ہے۔ اس کی وجہہ شاید یہ ہو کہ وہ شوکت خانم ہسپتال کے لیئے سالہا سال سے چندہ لیتے رہے ہیں۔ وہ پاکستانیوں سے جس ضمن میں چندہ لینا چاہتے ہیں اس میں نہ صرف ملک میں دریاﺅں پر بند لگانا شامل ہے بلکہ پاکستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ بھی کم کرنا ہے۔اس وقت صرف ایک بند بنانے کے لیے کم از کم بیس ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بیرونی قرضوں کا تخمینہ تقریباً پچانوے ارب ڈالر ہے۔ صرف ان دو مدوں کوجمع کر لیں تو پاکستان کو فوراًتقریبا ایک سو پندرہ بلین ڈالر کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ مزید بند اور دیگر اخرجات کو جمع کر لیں تو رقم کا تخمینہ کئی سو بلین ڈالر تک کا پہنچے گا۔اتنی بڑی رقم حاصل کرنے کے لیئے چندے کا کیا نظام ہو گا اس کے بارے میں وزیرِ اعظم نے کچھ نہیں کہا۔
بہت ممکن ہو کہ وزیرِ اعظم کے ذہن میں ہو کہ عوام سے ذکواة کے طور پر رقم حاصل کی جائے کیونکہ عوام مذہبی تقاضوں کے تحت ذکواة اپنی رضا مندی سے دیتے ہیں۔ سو ا س ضمن میں اندازہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام ہر سال کوئی دو ارب ڈالر کے لگ بھگ ذکواة دیتے ہیں۔ پاکستان میں ذکواة کا ایک سرکاری نظام بھی ہے جس میں بنکوں میں جمع رقم پر ذکواة وصول کی جاتی ہے۔ بعض محتاط اندازوں کے تحت ہر سال تقریباً دو سو چالیس ملین ڈالر ذکواة سرکاری طور پر جمع ہوتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام ذکواة براہِ راست غیر سرکاری مدوں میں دیتے ہیں۔ یہاں یہ سمجھنا لازم ہے کہ ذکواة کے استعمال کی مدیں محدود ہیں، بیرونی قرضہ ادا کرنے اور بند وغیرہ بنانے کے لیئے ذکواة استعمال ہو سکتی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ تو ماہرینِ شریعت ہی کر سکتے ہیں۔
چلیں یہ فرض کر لیتے ہیں کہ پاکستان کے عظیم شہری ذکواة کے علاوہ عام خیرات بھی کرتے ہوں گے۔ اور یہ بھی فرض کرلیتے ہیں کہ وہ ہر سال ذکواة سے دو گنا عام خیرات کی مد میں رضا مندی سے ادا کرتے ہوں گے۔اس مفروضہ کے تحت پاکستانی شہری ہر سال تقریباً چار ارب ڈالر چندہ خیرات دیتے ہوں گے، گو یہ صرف ایک مفروضہ ہے۔
اب جیسا کہ ہم نے پہلے لکھا تھا کہ پاکستان کو صرف بیرونی قرضہ ادا کرنے اور صرف ایک بند بنانے کے لیے تقریباً ایک سو پندرہ ارب ڈالر درکار ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہر سال پاکستانی شہریوں کی ساری خیرات اس مد میں لگادی جائے تو بھی یہ رقم جمع کرنے میں پچیس سال لگ جایئں گے یعنی تقریباً اتنے ہی سال کہ جتنے سال وزیرِ اعظم نے اپنی پہلی حکومت کا انتظار کیا۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ پاکستان کو تو کم از کم ایک سو پندرہ ارب ڈالر ابھی اور فوراً درکار ہیں ۔ یہ کیسے ہوگا، یہ تو وزیرِ اعظم اور ان کے ساتھی ہی بتا پایئں گئے۔
ہمیں یقین ہے کہ محترم وزیرِ اعظم پاکستان کی بقا کے لیئے چندے کی پر زور مہم ضرور شروع کریں گے۔ جو نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا کے ہر ملک میں چلے گی۔ سو ہم سب کو تیار رہنا چاہئے کہ آئندہ چند مہینوں میں عمران خان کی جماعت کے اراکین گلیوں گلیوں پھیل جایئں گے۔ ای میل اور انٹرنیٹ پر اپیلیں کریں گے، اور بنکوں میں پاکستان کے لیے چند وں کے کھاتے کھلیں گے۔ بہت ممکن ہے کہ ہمیں اور آپ کو پرچون کی دکانوں پر چندے کے ڈبے بھی نظر آیئں جس میں ہم اور آپ ریزگاریاں ڈال رہے ہوں۔ ہم یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم خود بھی ایسے کسے ڈبے میں اپنی استطاعت کے مطابق ریزگاری ڈال دیں گے۔
پاکستان کی بقا، اس کے قرض ادا کرنے، اور وہاں پانی کا انتظام کرنے کے لیے چندہ ادا کرنا واقعی کارِ خیر ہو سکتا ہے ۔ لیکن ہم انتہائی درد مندی اور رقیق دل کے ساتھ یہ بھی عرض کر دیں کہ دنیا میں ملک چندوں پر نہیں چلتے۔ اس کے لیئے فعال اور دانشمندانہ پالیسیاں بنانا لازم ہے۔ اگر ملک کا وزیرِ اعظم ابتدا ہی چندے سے کرے تو وہ جانے اور اللہ جانے!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں