امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 613

سو (100) دنوں کی کہانی!

بہت ممکن ہے کہ آپ وزیرِ اعظم پاکستان، عمران خان، کے سو دنوں کی کہانی سننا چاہتے ہوں۔ عمران خان کے حواری تو سود ن کا نام سنتے ہی بر گشتہ ہوجاتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ آپ ہمارے پیچھے کیوں پڑے رہتے ہیں۔ گزشتہ ’چوروں‘ کی بات کیوں نہیں کرتے۔ سو بات یہ ہے کہ مغرب کی دیکھا دیکھی سو دن کا غلغلہ خود خان صاحب اور ان کے حواریوں نے اٹھا رکھا تھا۔ سو ستم ظریفی اور کہانی یہ ہے کہ کوئی کہانی نہیں ہے۔
جو بڑے بڑے دعوے خان صاحب نے کیئے تھے، جس کی بنیاد پر آپ نے اور آپ کے دوستوں نے ان کو ووٹ دیا تھا، ان میں سے کوئی پور ا تو کیا ، شروع بھی نہیں ہوا۔ ہاں ایک آدھ اچھی بات ان کے زمانے میں ہوئی ہے جس کا کچھ سہرا خان صاحب کے سر باندھنا چاہیں تو آپ کی مرضی۔
پہلی کچھ اچھی بات تو مظلوم اور معصوم آسیہ بی بی کی رہائی کا حکم تھا۔ اس کا سہر اعلیٰ ا عدالت کے سر باندھیں جو چار سال سے یہ مقدمہ لیے بیٹھی تھی، یا خفیہ ہاتھوں کے سر باندھیں جو پاکستان کا ہر کام چپ چاپ سے کرتے رہتے ہیں؟ شاید انہیں مولانا حالی کا یہ شعر پسند ہو کہ ، ” جو نا بلد ہیں ان کو دکھا چور بن کے راہ ، گر چاہتا ہے خضر کی عمرِ دراز ت±و۔“ حالی صاحب کی تفہیم یہ ہے کہ اگر ت±و جاہل عوام کو چھپ کے راہ دکھاتا رہے گو تو حضرت خضر کی عمر پا کر قیامت تک لافانی رہے گا۔
سو ہمارے خفیہ لیکن آہنی ہاتھ اپنا کام ہاتھ کی صفائی سے کرتے رہتے ہیں۔ انہیں مولانا حالی بھی پسند ہیں اور جالب صاحب بھی۔ جالب صاحب کی مشاورت توخفیہ آہنی ہاتھوں کو بہت پسند تھی۔ آپ کو جالب صاحب کی یہ سطریں تو یاد ہوں گی:” میں نے اس سے یہ کہا، یہ جو دس کروڑ ہیں، جہل کا نچوڑ ہیں، ان کی فکر سو گئی، ہر امید کی کرن، ظلمتوں میں کھو گئی، یہ خبر درست ہے ، ان کی موت ہوگئی، بے شعور لوگ ہیں، زندگی کا روگ ہیں، اور تیر ے پاس ہے ان کے دردکی دوا۔۔۔۔۔بولتے جو چند ہیں، سب یہ شر پسند ہیں، ان کی کھینچ لے زباں، گھونٹ ان کا تو± گلا۔“ آسیہ بی بی کی رہائی کے حکم کے بعد وہی شر پسند خفیہ ہاتھو ں کے گلے پڑ گئے ، جن کے گلے میں خفیہ ہاتھوں نے روپوں کے ہار ڈالے تھے، اور خفیہ ہاتھوں اور اعلیٰ عدالت کی شان میں گستاخیوں کے ساتھ پاکستان کے عوام کو باقاعدہ غداری کا حکم دینے لگے۔ اس پر تو لگتا ہے اعلیٰ عدالت اور خفیہ ہاتھوں کی سٹی گم ہو گئی۔ نہ ان پر توہینِ عدالت کا حکم ہو، نہ کوئی عسکری کاروائی۔ آپ نے دیکھا سنا ہوگا کہ ہمارے ہاں خفیہ ہاتھوں یا اعلیٰ عدالتوں کے خلاف زبان دراز ی کی سزا مہاجروں کو، بلوچوں کو، پشتونوں کو اور دیگر کو کیسے دی جاتی ہے۔ ہم تو یہی کہیں گے کہ جسے پیا چاہے وہی سہاگن۔ بات کہا ں چلی گئی۔ ہم تو آسیہ بی بی کی رہائی کا سہرا ، خان صاحب کر سر باندنا چاہتے تھے۔
چلیں دوسر ے اچھے کام کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ خبر اٹھی کہ بھارتی سکھ دوستوں کی ان کے گرو نانک کی زیارت آسان بنانے کے لیئے کرتار پور کی رہداری کھولی جائے گی، اور یہ کہ بھارت اور پاکستان دونوں اس سلسلے میں اپنے اپنے علاقوں میں سڑکیں وغیر ہ بنایئں گے۔ عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ دو تین بعد اس کام کا افتتاح کریں گے۔لیکن بھارت نے کل ہی کام کر دیا۔ ہم تو اس ساری اچھی خبر کا سہر ا خان صاحب کو پہنانا چاہتے تھے۔ لیکن کیا کریں پاکستان کے بڑے اخباروں کا کہ انہوں نے پگڑی پاکستانی جنرل باجوہ کو پہنا دی۔ چلیں کوئی اور اچھی خبر ڈھونڈتے ہیں۔ خان صاحب کہتے تھے کہ وہ اب کبھی گدائی کا کشکول نہیں اٹھایئں گے۔ لیکن انہیں مجبوراً سعودی عرب سے تین بلین ڈالر مانگنے پڑ گئے۔ سعودیوں نے اپنی سخاوت دکھانے کے لیئے مدد کا وعدہ کر لیا۔ لیکن تا دمِ تحریر ایک دھیلہ بھی پاکستان نہیں پہنچا۔ اب کیا کریں؟خان صاحب پاکستان کے دیرینہ یار چین کے پاس گئے۔ وہاں مدد کے بجائے ، سی پیک کا معاہد ان کے گلے پڑگیا۔ لیکن وہاں سے خان صاحب ایک ایسی ریل گاڑی کی خبر لے آئے جو ان کے مطابق روشنی کی رفتار سے بھی تیز چلی گئی۔ پاکستانی عوام اسی میں الجھے ہوئے ہیں، کیونکہ عمران خان کے ووٹر ایسی ہی کہانیوں کے دلدادہ ہیں۔ جیسا دیس ویسا بھیس۔
ادھر ادھر ٹامک ٹویئاں کرنے سے بہتر ہے کہ ہم سب یہ مان لیں کہ عمران خان اور ان کے حواری اپنے تمام تردعووں کے باوجود پہلے چند ماہ میں کوئی بڑا تیر نہیں مار پائے۔ بہتر یہ تھا کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ، بلکہ اس سے کہیں پہلے خان صاحب اور ان کے ساتھی کئی منصوبے اور متبادل منصوبے تیار کر لیتے۔ اور وہ یہ کام پچھلی حکومتوں کی برایﺅں کو مدِنظر رکھ کر کرتے جس کا واویلا و ہ سالوں سے کر رہے تھے۔ دنیا میں ہر حزبِ اختلاف ایسا ہی کرتی ہے۔ اور اقتدار میں آکر صرف پچھلوں کا رونا نہیں روتی رہتی۔
حق تو یہ ہے کہ خان صاحب کو کئی سال حکومت کرنے کا موقع ہے۔ انہیں اب بھی چاہیئے کہ سنجیدگی سے معاشی اور سماجی منصوبے ترتیب دیں۔ ان کی معیاد مقرر کریں اوران پر کام کریں۔ اب ماضی کا رونا رونے کو وقت گزر گیا۔ اگر انہوں نے اب بھی ایسا نہیں کیا تو وہی خفیہ ہاتھ جو شاید انہیں اقتدار میں لائے تھے، ان کا جھٹکا کر دیں گے۔ خان صاحب کو یاد رکھنا چاہیئے کہ چین ، ملائشیا ، یا ایسا کوئی ماڈل ان کے کام نہیں آئے کا۔ یہ دونوں ملک نیم جمہوری آمر ہیں۔ ان کے ماڈل جمہوری نظام میں نہیں چلتے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں