تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 349

سچے الزامات

کہتے ہیں کہ ایک جھوٹا شخص پارساﺅں کا حلیہ بنا کر بادشاہ کے دربار میں گیا۔ بادشاہ نے اسے عالی نسب اور حاجی یقین کرکے بہت خوش ہوا۔ ایک درباری نے اس مکار جھوٹے شخص کو پہچان کر اس کا بھانڈا پھوڑ دیا، اس مکار جھوٹے شخص نے اپنے ہواس دُرست رکھے، جلدی سے بولا میں نے جھوٹ پر جھوٹ بولا لیکن اب آپ کی خدمت میں ایک ایسا سچ بیان کرنا چاہتا ہوں جس سے بڑھ کر کوئی بات سچ نہ ہوگی۔
حضور والا وہ سچی بات یہ ہے کہ جھوٹ سے خالی کوئی نہیں ہے بلکہ جو جتنا زیادہ تجربہ کار ہوتا ہے اتنا ہی بڑا جھوٹ بولتا ہے۔
مرے جھوٹ پر کس لئے ہے ملال
ملاوٹ سے خالی نہیں کوئی سال
اگر سچ کہوں جھوٹ کی ہے یہ بات
بڑے بڑے اس میں دیتے ہیں جھوٹوں کو مات
ہمارے وطن میں جھوٹ اتنا زیادہ بولا جاتا ہے کہ سچ کی تلاش نہ ممکن نظر آتی ہے۔ سچ کی خاطر زہبر کا پیالہ لوگ پینے کے بجائے خواہش رکھتے ہیں کہ دوسرا یہ پیالہ پی کر سچ کو زندہ رکھے اور سچ کے بول بالا کی توقع رکھتے ہیں۔ سچ ہمیشہ بولا جائے مگر وہ سچ دوسرا اور خود جھوٹ کے جام کے جام ہمہ وقت چڑھاتے جائیں۔ اس جھوٹوں کے معاشرے میں سچ کو تلاش کرنا ناممکن تو نہیں، مشکل ضرور ہے۔ ہمارے ملک میں ایک صورت میں ہی سچ ادا کیا جاتا ہے جب وہ دوسروں کے بارے میں بیان کیا جائے۔ جس کی ایک شکل ہمارے معاشرے میں اس طرح نظر آتی ہے جو کوئی ایک دوسرے پر الزامات کی شکل میں ادا کئے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک دوسرے پر لگائے جانے والے الزامات تقریباً سب ہی سچے ہوتے ہیں۔ چاہے جب سیاسی پارٹیوں کے سربراہ دوسری پارٹی کے سیاسی لیڈروں کے بارے میں بیان کر جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے اداروں کے پاس معاشرے کے ہر طبقے کے طاقتور لوگوں کے بارے میں بہت سے شواہد جمع ہوتے ہیں جو وقتاً فوقتاً اپنے مخالف کے خلاف استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس ہی طرح سوشل میڈیا پر اداروں کے بارے میں جو الزامات لگائے جاتے ہیں ان میں بھی بڑی حد تک صداقت پائی جاتی ہے، ہر طبقہ کے طاقتور افراد اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی تردید کرنے کے لئے بہت سے میڈیا سیل بنا کر جوابی الزامات لگا کر ان الزامات کا تدارک کرنے کے حربے استعمال کرتے ہیں جس سے دوسرا سچ کسی نہ کسی طرح سامنے نکل کر آجاتا ہے اور ثابت ہو جاتا ہے کہ سچ سامنے آکر ہی رہتا ہے۔
پہلے زمانے میں کہا جاتا تھا کہ سچ آخری میں سامنے آتا ہے مگر اب وقت بدل رہا ہے۔ تبدیلی آ نہیں رہی ہے، تبدیلی آ چکی ہے۔ سچ اب سب سے پہلے سامنے آرہا ہے، وہ سچ ایک دوسرے پر الزامات کی شکل میں سامنے آرہا ہے، صرف یقین کرنے کی نوبت اب تک نہیں آ سکی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے پر الزامات لگانے والے ایک دوسرے کے شریک جرم ہوتے ہیں۔ کسی نہ کسی وقت وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ہر قسم کے جرم کرنے میں شریک رہتے تھے۔
اس طرح چوری کے مال پر جب جھگڑا ہوتا ہے تو اختلافات پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اختلاف جب بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں تو وہ علیحدگی اختیار کر کے دوسرے گروہ میں شامل ہو کر الزامات لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح وہ ان کے جرم کی گواہی دے کر سچ کو سامنے لاتے ہیں۔ جواب میں دوسرا بھی ان کے جرم سے واقف ہونے کی وجہ سے ان کے تمام غیر اخلاقی کاموں کا شاہد ہوتا ہے اس طرح وہ بھی ان الزامات کا جواب الزامات سے دیتا ہے۔ یوں دوسری طرف کا سچ بھی سامنے آ جاتا ہے کیونکہ سچ صرف الزامات کی صورت ہی ہمارے معاشرے میں سامنے آتا ہے۔
اب ذرا پاکستانی معاشرے میں سچ کی تلاش میں الزامات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہر الزام لگانے والا دوسرے کا شریک جرم رہا ہے اگر پاکستانی سیاسی جماعتوں پر لگے الزامات کا جائزہ لیا جائے تو ان الزامات سے سچ کو تلاش کرنا کوئی زیادہ مشکل نظر نہیں آتا۔
پاکستان کی ایک سیاسی جماعت پیپلزپارٹی پر لگنے والے الزامات میں جو بڑے الزام ہیں ان میں کسی حد تک صداقت نظر آتی ہے۔ ان الزامات کی گونج معاشرے کے مختلف طبقوں میں زبان زد عام رہی ہے۔ پیپلزپارٹی پر جو دو بڑے الزام لگتے ہیں ان میں سب سے زیادہ مالی بدعنوانی کے الزامات ہیں جو کہ ہر کسی کی زبان پر ہمہ وقت ادا ہوتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں