امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 679

عمران خان، تحریک انصاف، مذہب کی افیم

عمران خان اور تحریکِ انصاف کی حکومت ان کے مرئی اور غیر مرئی حمایتیوں کی مدد سے بن بھی گئی۔ اس نے اپنا ایک صد روزہ پروگرام بھی طے کر دیا ہے، جو اب عمل درآمد کے مراحل میں ہیں۔ ہر نیک دل اور جمہوریت پسند شہری ان کی کامیابی کا خواہاں ہے، باوجودیکہ اس حکومت کے قیام میں غیر جمہوری وسیلے بھی استعمال ہوئے ہیں۔ ہم بھی ان کی کامیابی کے خواہاں ہیں۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ وہ فوری مشاہدات بھی تحریر کر دیئے جایئں جو عمران خان کی کامیابی کی راہ میں حائل ہو سکتے ہیں۔
تحریک انصاف عام طور پر خود کو ایک قدرے آزاد خیال اور معتدل مزاج جماعت کے طور پر پیش کرتی رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہماری قوم کے نوجوانوں کی ایک بھیڑ ہے جو ایک بنسی بجانے والے ساحر کی عمران خان کی دھن پر رقص کرتی رہی ہے۔ اس رقص میںجلسہ اور جلوسوں میں تحریک کے میک اپ سے لدی نوجوان خواتین اور جیئے عمران کے نعرے لگاتے نوجوان مرد بھی شامل رہے ہیں۔ تحریک کے جلسوں جلوسوں میں اسٹیج سے گانا بجانے کے منتظم جنہیں عام زبان میں ڈی جے DJ کہا جاتا ہے، اور معروف گلو کار اور نغمہ ساز بھی شامل رہے ہیں۔ اس کے نوجوان حامی سوشل میڈیا کے استعمال میں بھی طاق ہیں، اور ایک تبصرے یا تنقید پر مخالفین سے جونک کی طرح لپٹ جانے کے ماہر بھی۔ ان تمام عناصر کو مدّ ِ نظر کر ہر شہری نے توقع کی ہے کہ اب ہم جنرل ضیا کے نافذ کردہ جبریہ اخلاقی نظام سے نجات پا لیں گے۔
لیکن لگتا ہے کہ عمران خان کی نیت کچھ اور تھی، جو ظاہر میں کچھ تھی اور باطن میں کچھ اور۔ انہوں نے حکومت پاتے ہی جو اعلانات کیئے ان میں پاکستان کو ایک خیالی ”ریاستِ مدینہ“ کی طرح کی ریاست بنانے کا مژدہ سنایا۔ مدینہ کی خیالی یا اسطورائی Mythical ریاست کیا تھی، تھی بھی یا نہیں، یہ ایک بحث انگیز معاملہ ہے جس کے بارے میں تفصیلی طور پر لکھنا ضروری ہے۔ لیکن مفکرَّ اسلام و پاکستان علامہ اقبال کا یہ شعر ابھی پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے: ”غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم۔۔۔ نہایت اس کی حسینؑ، ابتدا ہے اسماعیلؑ“۔ مولانا مودودیؒ اسلامی ریاست کے بارے میں بہت کچھ لکھ گئے ہیں۔ اگر عمران کا اشارہ ایسی کسی ریاست کی طرف ہے تو خدا خیر کرے۔ اس حوالے میں مولانا مودودیؒ ہی کی کتاب ”خلافت و ملوکیت“، بڑے بڑے مفکرین کو بڑے بڑے حوالے فراہم کرتی ہے۔ شایدکبھی عمران خان اپنے عرصہ طریقت میںاس سے استفادہ کرلیں، اور کچھ غلطیاں کرنے سے بچ جایئں۔
دوسرا مژدہ خان صاحب نے پاکستان میں مدارس میں جدید سائنسی نصاب نافذ کرنے کے بارے میں سنایا۔ بہت ممکن ہے وہاں جنات کے ذریعہ توانائی پیدا کرنے کے طریقہ سکھائے جائیں، جن کے بارے میں ضیائی اثر میں کچھ بڑی جامعات میں بحث بھی ہو چکی ہے۔ یا وہاں جدید میڈیکل اور طبِ نبوی وغیرہ میں مفاہمت کرنا سکھایا جائے۔
صرف ان دو اعلانات سے ہی یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ خان صاحب یا تو دایئں بازو کے مذہب پرستوں سے متفق ہیں، ان کے ساتھی اور اتحادی ہیں، یا ان پر ہمارے ملک کے شدت پرست مذہبی عناصر کا دباﺅ اتنا شدید ہے کہ وہ انہیں خوش رکھنے اور ان کے ردِّ عمل کا دفاع کرنے کی پیش بندی کر رہے ہیں۔
ابھی اربابِ فکر ان عوامل اور ان پیش رفتوں پر سو چ ہی رہے تھے کہ، ایک بار پھر توہینِ مذہب کا غلغلہ پوری طرح گونج اٹھا۔ ہالینڈ کے ایک شدت پرست اور متعصب سیاسی رہنما ، گیئرت ولڈرز Geert Wilders نے ایک دفعہ پھر مسلمانوں کے رسول کے مضحکہ خیز خاکوں کا قضیہ کھڑا کردیا۔ جس کی نہ تو ہالینڈ میں کوئی خاص پذیرائی ہوئی اور نہ ہی اسے کوئی عالمی حمایت ملی۔ اس نے یہ بھی اعلاان کیا تھا کہ وہ یہ خاکے ٹی وی پر بھی دکھائے گا ، وہ بھی وقت پر نہ ہوسکا۔ ہم مسلمان اس طرح کی حرکتوں کو کتنا ہی رکیک کیوں نہ جانیں، دنیا میں مختلف مذہبی کرداروں اور روایتوں کا مضحکہ طرح طرح سے اڑایا جاتا رہا ہے۔ خود مغربی دنیا میں توہینِ مذہب کے کچھ خفتہ قوانین کی موجودگی کے باوجود اس قسم کے معاملات میں عدالتی کاروائیاں خال خال ہی ہوتی ہیں۔ حضرت عیسیٰ کی توہین آمیز پینٹگ، تصاویر، اور فلمیں وغیر ہ مغرب اور امریکہ میں بنتی رہی ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں توہینِ مذہب کی چنگاری شدید قتل و غارت گری کو فروغ دیتی رہی ہے۔ انسانوں کے جذبات کو اشتعال دینے اور مذہب کے نام پر سیاسی یا ذاتی حمایت حاصل کرنے کا یہ ایک مجرب نسخہ ہے۔
ہالینڈ سے شروع ہونے والے اس نئے قضیہ کے جواب میں پاکستان کے نئے وزیرِ خارجہ نے فوراً اس پر جذباتی بیانات دینے شروع کر دیے۔ ہالینڈ کی حکومت سے کاروائی کا مطالبہ کر دیا جو اس سے نے سنی ان سنی کردیا۔ پھر انہوں نے کہا کہ وہ یہ معاملہ اسلامی ملکوں کی تنظیم میںاٹھائےں گے۔ سینیٹ میں قرارد پاس کی گئی۔ عمران خان بھی میدان میں کودے۔ لیکن انہوں نے یہ اچنبھا خیز بیان بھی داغ دیا کہ مسلم ممالک اس قسم کے معاملات میں متحد نہیں ہیں۔ پھر یہ بھی اعلان کردیا کہ یہ معاملہ وہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں لے جائیں گے۔
عمران خان اور ان کے کئی ساتھی جدید تعلیم یافتہ ہیں۔ ان کے وزیرِ خزانہ ایک عقلمند انسان لگتے ہیں۔ کاش کوئی انہیں یہ سمجھا سکے کہ ملکوں کی ترقی عوام کو مذہبی افیم چٹا کر نہیں ہوتی۔ ایسا کوئی بھی ملک جہاں یہ مذہبی چٹائی جاتی ہو، ترقی کے عالمی اشاریوں میں نمایاں نہیں ہے۔ اگر کوئی تحریکی کارکن بھارت میں ہندوتوا کے فروغ کی یا اسرایئل میں شدید صہیونیت کے فروغ کی بات کرتا بھی ہے تواسے جاننا چاہیئے کہ عالمی دانشور جن میں بھارتی نژاد امرتیا سین جیسے نوبل انعام یافتہ شامل ہیں، ایسے ممالک کو اس سے پرہیز کرنے کے مشورے دیتے رہے ہیں۔
کاش کوئی عمران خان کو سمجھا سکے کہ انہیں ملک کی ترقی کے لیئے مذہبی افیم سے پرہیز کرنا ہوگا اور توہینِ مذہب کی چنگاریوں کو فوراً بجھانا ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں