امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 579

عمران خان کے ماڈل

عمران خان کے ماضی میں پلے بوائے ہونے کے بارے میں مغربی اخباروں میں بہت کچھ لکھا جاتا رہا ہے، جن میں برطانیہ کا قدامت پرست جریدہ The Times بھی شامل ہے۔ ہم وزیرِ اعظم کے لحاظ میں پلے بوائے کا وہ ترجمہ استعمال نہیں کر رہے جو حقّی صاحب کی آکسفورڈ کشنری میں درج ہے، آپ خود دیکھ لیں۔ ہاں ہم جالبی صاحب کی انگریزی اردو لغت سے استفادہ کرتے ہوئے انہیں ماضی کا ایک رئیس کھلنڈرا جوان کہہ لیتے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ میں عمران خان سے حکمرانی کے نئے ماڈلوں کو چرچا سن سن کر ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اپنے کھلنڈرے پن میں نئی نئی (یہاں نئے نئے بھی چل سکتا ہے) ماڈلوں سے کھلواڑ کی عادت شاید ان کے رگ و پے میں سرایئت کر گئی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اب انہوں نے پلے بوائے کے کمبل سے جان چھڑا لی ہو لیکن یوں لگتا ہے کہ کمبل انہیں نہیں چھوڑتا۔ جبھی تو وہ سوتے جاگتے ماڈل ماڈل کی گردان کرتے ہیں اور روز ایک نیا حکمرانی ماڈل ڈھونڈھ لاتے ہیں۔ جن میں ریاست مدینہ کا ماڈل، چینی ماڈل، ملیشیائی ماڈل، اور عسکری ماڈل، ابھی تک سرِ فہرست ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ا س میں روسی ماڈل ، ترکی ماڈل ، اور جاپانی ماڈل وغیرہ بھی شامل ہو جایئں گے۔ اور پھر وہ خود جانی واکر کا ماڈل بنے ، ’میرا جوتا ہے جاپانی، یہ پتلون انگلستانی، سر پہ لال ٹوپی روسی، لیکن دل ہے پاکستانی ‘ گاتے ہوئے سڑکوں پر ناچتے نظر آیئں گے۔ مزاح سے گریزکرتے ہوئے ہم ان کے حکمرانی ماڈلوں کا جائزہ لیتے ہوئے، یہ دیکھیں گے کہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیئے وہ حکمرانی کے اصل ماڈل یعنی جمہوری ماڈل کی بات کیوں نہیں کرتے۔ اب ہر ماڈل پر باری باری نظر ڈالتے ہیں:
ریاست مدینہ کا ماڈل : اس ماڈل کی بات کرنے سے پہلے ہم سو بار نعوذ باللہ پڑھتے ہیں، اور توبہ توبہ کرتے اس ماڈل کا صرف تاریخی تحقیقی تجزیہ کرتے ہیں۔ اگر آپ اللہ کو حاضر ناظر جان کر اور حضور کو گواہ بنا کر صدقِ دل سے تحقیق کریں گے کہ تو آپ کا پتہ چلے گا کہ ریاست مدینہ کا کوئی ماڈل تھا ہی نہیں۔ اگر ہوتا تو ابنِ اسحاق جیسے سیرت نگار، اور ابنِ خلدوں جیسے ماہرِ تاریخ اور عمرانیات اس کا ذکر ضرور کرتے اور چند سالہ ریاستِ مدینہ کے بعد کی ریاستیں ا س ماڈل کی بنیاد پر آئند ہ فخرسے حکمرانی کرتیں۔
آپ کو یہ بھی سمجھ میں آئے گا کہ حضور کے وصال کے بعد خلافت کے تعین میں کیا مسائل پیش آئے ؟ کیوں یہ فیصلہ کیا گیا کہ خلافت کا حق دار صرف اہلِ قریش میں سے ہی ہو سکتا ہے۔ اور اگر ریاست مدینہ کا ماڈل قابلِ تقلید ہونا تھا تو چار قابلِ صد احترام خلفائے راشدین میں سے تین کو کیوں شقی القلبی سے قتل کیا گیا۔ کیا یہ ماڈل کوئی ایسا قبائلی ماڈل تھا جس میں حکومت کی تبدیلی صرف حکمراں کو قتل کرکے ہی ہو سکتی ہے۔
کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ چونکہ عمران خان خود نیازی قبائلی ہیں تو انہیں قبائلی بنیاد پر قائم کیا گیا نظامِ حکمرانی ہی اچھا لگتا ہے۔ یا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست مدینہ کا نام لے کر وہ پاکستان کے سادہ لوح عوام کو اور بھی بے وقوف بنانا چاہتے ہیں۔ شاید انہیں یقین ہے کہ جنرل ضیا کی” اللہ حافظ ثقافت” کی ماری مخلوق کسے ایسے نظام کے بارے میں سوال نہیں کرے گی جس میں مدینہ کا مقدس و محترم حوالہ شامل ہو۔ ریاست مدینہ کے نام کا استحصال کرکے عمران خان کے حواری شاید آپ کو میثاقِ مدینہ کا حوالہ بھی دیں۔ آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ انیسویں صدی کے مغربی مستشرقین سے پہلے کی اسلامی حکومتوں نے اس میثاق کو کیوں آنکھوں سے نہیں لگایا اور کیوں اسے نظامِ حکمرانی میں شامل نہیں کیا۔
چینی ماڈل : عمران خان کشکول اٹھائے چین پہنچے تو وہاں سے واپسی میں چینی ماڈل اٹھا لائے۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ بھئی یہ چینی ماڈل کیا ہے۔ سب سے پہلے تو انہیں یہ جاننا ہو گا کہ چین کا موجودہ حکمرانی ماڈل اس کمیونسٹ نظام کی مسخ شدہ شکل ہے جو ماﺅ نے نافذ کیا تھا۔ جس کے نتیجہ میں چین رفتہ رفتہ ایک عالمی طاقت بن گیا۔ لیکن عمران خان بھلا کمیونسٹ ماڈل کی بات کیسے کر سکتے ہیں بالخصوص اس ملک میں جہاں کمیونزم کو لادینیت سمجھا جاتا ہے، جس کی مخالفت کرتے کرتے پاکستانیوں کو جہادیوں میں تبدیل کیا گیا۔
کیا وہ نہیں جانتے کہ چین کو اب ایک ایسا سرمایہ دار ملک بنادیا گیا ہے ، جس میں ترقی کے ساتھ مالی اور دیگر بد عنوانیا ں آسمان کو چھوتی ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اس نظام کے بدعنوان افسروں کی عیاش اولادیں اور جائدادیں کہاں کہاں پہنچی ہوئی ہیں۔ وہاں قانون کی حکمرانی اس طرح کی ہے کہ بدعنوانی کے الزام میں نام نہاد عدالتی کاروایوں کی آڑ میں سینکڑوں لوگ قتل کیئے جاتے ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ چین کے صوبے سنکیانگ میں لاکھوں اقلیتی مسلمانوں کے ساتھ کیسی زیادتی اور ظلم ہو رہا ہے۔ کیا آپ بھی پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ یہی سب کرنا چاہتے ہیں۔
ملیشیائی ماڈل: عمران خان مالی امداد کی تلاش میں ملیشیا بھی پہنچے۔ وہاں ان کی ملاقات بزرگ سیاستدان مہاتیر محمد سے ہوئی۔اس ملاقات کی اہم یاد یہ بھی ہے کہ اس کے دوران مہاتیر محمد کی بیگم نے عمران خان کا ہاتھ تھامنے کی درخواست کی۔ ملیشیا کے اس سفر کے بعد عمران خان نے پاکستان کو ملیشیائی ماڈل بنانے کا عندیہ دے دیا۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ ملیشیائی نظامِ حکومت جمہوریت کی آڑ میں شخصی حکمرانی کا ماڈل رہا ہے۔ جس میں مہاتیر محمد کم از کم بایئس سال سے زیادہ حکمراں رہے ہیں۔ اور یہ کہ انہوں نے اپنے پسندیدہ ممکنہ جانشین، انور ابراہیم سے ناراض ہو کر انہیں اغلام بازی کے جرم میں جیل میں سڑ وایا تھا۔ کیا عمران خود بھی سالہا سال اسی طرح حکمرانی کے خوب دیکھ رہے ہیں۔ او ر کیا وہ بھی اپنے مخالفین سے اسی طرح پیش آنا چاہتے ہیں۔
عسکری ماڈل: عمران خان، شاید ایک عسکر ی ماڈل کو اپنا کر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا ماڈل میں جس میں عسکری قوتیں خود پس منظر میں رہ رہ کر اپنے کسی پٹھو کے ذریعہ حکمرانی کرتی ہیں۔ عمران خان اور ان کے حواری بار بار یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کے دورِ حکومت میں شہری اور عسکری اربابِ حل و عقد ایک ہی صفحہ پر ہیں۔ بلکہ چند دن پہلے تو یہ بھی کہا گیا کہ عساکرِ پاکستان ، تحریکِ انصاف کے منشور کی حمایتی ہیں۔
عمران خان تو آکسفورڈ وغیرہ میں پڑھ کر آئے ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ پاکستان کے آئین کے تحت عساکر ِ پاکستان ریاست کا ستو ن نہیں ہیں بلکہ شہری انتظامیہ کے ما تحت ہیں۔ اس آئین کے تحت عسکری اور شہری اربابِ حل و عقد کو ایک صفحہ پر ہونا دراصل ایک فروعی بات ہے۔ اصل میں عساکر کو شہری اربابِ حل و عقد کے تابع ہونا لازم ہے۔ عمران خان کے حکمرانی ماڈلوں میں آپ کو جمہوری ماڈلوں کی کوئی بات نہیں ملے گی۔ ممکن ہو کہ انہیں جمہوریت سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ وہ تو اب سے پہلے کئی بار پاکستان کی پارلیمان کی بھد اڑاتے رہے ہیں۔ بلکہ پاکستان کی پارلیمان کا گھیراﺅ کرکے اس پر حملہ کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔ پارلیمان کی بھد اڑانے کی ریت ان کے موجودہ گوئبلز یعنی وزیراطلاعات میں بھی سرایت کر چکی ہے، جو کھلے بندوں سینیٹ کی توہین کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام کو جان رکھنا چاہیے کہ عمران خان کے پاس کسی جمہوری نظام کا کوئی ماڈل اور خاکہ نہیں ہے۔ وہ ماڈل ماڈل کی رٹ لگا کر ہمارا آپ کا ذہن الجھانا چاہتے ہیں، اورہمیں شخصی حکمرانی کی طرف راغب کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لکھا ہے ہماری قسمت میں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں