دوست ۔ متاع خاص 376

عورت مارچ

مجھے ہمیشہ سے اپنے عورت ہونے پر فخر رہا کیونکہ خدا نے میرے اندر وفا، محبت، قربانی، درد، احساس کا ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ جمع کر رکھا ہے جسے بوقت ضرورت استعمال کرنے سے میری روح اور ذہن دونوں شانت رہتے ہیں اور خدا کی قربت کے مواقع بھی فراہم کرتے رہتے ہیں کیونکہ میرا عمل ہی میرے وجود کی تکمیل کی نشاندہی کرتاہے اور مجھے اپنے رب کائنات کے ان گنت خزانوں رحمتوں، برکتوں کا احساس دلاتا ہے۔ مجھے اپنے حقوق کے لئے واویلا مچا کر سڑکوں پر بینر اٹھا کر دست خیرات پھیلانے کی ضرورت نہیں کیونکہ میرے مذہب نے عورت کو جو حقوق دے دیئے ہیں وہ کوئی غصب نہیں کر سکتا نہ کوئی نظام نہ کوئی حخمران نہ کوئی رسم نہ رواج۔
پھر میں سڑکوں پہ کھڑے ہو کر اس کی تشہیرکیوں کروں۔ ۔پاکستان میں عورت مارچ کے نام سے پہلی دفعہ عورتوں کے حقوق پر جس طرح آواز اٹھائی گئی اس کو دیکھ کر مایوسی ہوئی کیونکہ چند نام نہاد تنظیموں نے ایک مختصر سی تعداد کو اکھٹا کرکے آزادی نسواں کا نعرہ تو لگا دیا۔ شرم و حیاءکی دیوی کو سربازار میڈیا کے سامنے حقوق کا مطالبہ کرنے کے لئے آلہ کار بنا لیا اور خواتین کے عالمی دن کو منانے کے لئے اپنا حصہ پیش کردیا لیکن سوال یہ ہے کیا چند گھنٹوں کے جلوس، شور نعرہ بازی سے عورتوں کو وہ انصاف مل سکے گا جس کا مظاہرہ کیا گیا۔
جاگیردارانہ نظام کے پیروکار کیا عورت کو وہ مقام دے سکیں گے جس کی صدیوں سے وہ متلاشی ہے۔ کیا کوئی مرد عورت کی برابری کو سچے دل سے تسلیم کرے گا ہر گز نہیں جس قدر پارلیمنٹ بل منظور کرالے جس قدر آزادی نسواں کے ڈھول پیٹے جائیں، کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ذہنوں کو لگی کائی کو وقت کے پانی سے دھونا مشکل ہے۔ عورتوں کی آبروریزی، حالات سے دل برداشتہ ہو کر ان کی خودکشی، زبردستی کی شادی، کم عمری کی شادی، اغوائ، زنا، تشدد، سب کچھ اسی طرح پانی کے بہاﺅ کی طرح چلتا رہے گا، زمانہ لاکھ ترقی کرے فرسودہ رسم و رواج کو طرز کہن سمجھ کر ان سے بغاوت کرنا بہت مشکل ہے۔ تبدیلی اگر مقصود ہو تو ذہنوں کو سب سے پہلے تعلیم اور آگہی کی روشنی سے منور کرنا ہوگا۔ اگر ایک عورت اپنے بچوں کی تربیت کے وقت خاص طور پر اپنے بیٹوں کو عورت کی عزت و احترام کا سبق سکھائیں اپنے دودھ کے نور کے ساتھ ان کے ذہنوں کی آبیاری مثبت انداز میں کریں بچپن سے انہیں عورت کی تقدیس کا حکم دیں تو میرا یقین ہے عورت اس کا اثر معجزاتی طور پر دیکھ لے گی۔ بہت سے گھرانے ایسے ہیں جہاں تعلیم اعلیٰ درجے کی دلائی جاتی ہے لیکن عورت کو خدمت کے نام پر کمزور مخلوق سمجھ کر پیروں تلے روندا جاتا ہے اس کی شخصیت کو دبا دیا جاتا ہے لیکن اس کے برعکس کچھ خاندان ایسے بھی ہیں جہاں عورت کم تعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان رہ کر بھی عزت اور احترام کے اونچے مینار پر کھڑی کردی جاتی ہے۔ہر جگہ ہر مقام پر منفرد سوچ کارفرما نظر آتی ہے۔ اس لئے حقوق کی یہ سرد جنگ کہیں بازی لے جاتی ہے اور کہیں آبلہ پا ہو کر ننگے سردشت دنیا میں بھاگتی پھرتی ہے۔ عورت کو اسلام تحفظ کی ضمانت دیت اہے، گھر کی چار دیواری کے اندر فرائض کو سنت رسول کے مطابق ادا کرنے کے بعد ابدی جنت کی خوشخبری دیتا ہے۔ اگر اس کے حقوق بروقت ادا نہ ہوں تو اس کا صبر، اس کی برداشت اس کی آزمائش ایک دن اسے سرخرو کردیتے ہیں۔ انصاف اور حقوق کا مطالبہ معاشرے اور افراد سے مربوط نہیں پر اللہ کی دین ہے جسے صبر دیتا ہے پھر اسے بہت کچھ عطا کرتا ہے اور جسے سمجھ دیتا ہے اس کی آزمائش کو بھی آزماتا ہے۔ بے شک مرد طاقت ور ہے عورت کمزور ہے لیکن عورت کی دلیل اس کا علم اس کا اعتماد اللہ پر یقین کامل اس کو بہت سے حقوق کی بشارت دے دیتا ہے جس کا اس نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا اس طرح سڑکوں پر حقوق کی بھیک مانگنا عورت کی شان کے خلاف ہے۔ یہ عورت مارچ نہیں یہ عورت ٹارچ ہے جو اس کی خودداری، انا اور معصومیت کو تکلیف دینے کے مترادف ہے۔ ارباب اختیار اسی عورت کو سڑکوں پہ لا کر ذاتی مفاد کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں جن غیر ممالک کی تقلید میں عورت آزادی نسواں کا مطالبہ کرتی ہے۔ ان مغربی ممالک میں عورت اور مرد معاشی طور پر یکساں محنت کرتے ہیں گھر کا خرچ مشترکہ باہمی بنیادوں پر چلاتے ہیں۔ جہاں عورت صرف گھر کی ملکہ ہو اور باہر کی دنیا میں مرد کفالت کے لئے صبح سے شام تک ان تھک محنت کرتا ہو۔ وہاں حقوق ہی حقوق ہیں پھر ایسے مشرقی معاشری میں کہاں کی آزادی کہاں کے حقوق۔ اللہ بھلا کرے ان عورتوںکا جو کٹھ پتلی بن کر میڈیا کو دعوت عیش دیتی ہیں اور عورت کے پاکیزہ وجود کا استحاصل کرتی ہیں۔ اس سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ وہ عورتوں میں تعلیم عام کریں۔ گھر گھر، گلی محلہ سب جگہوں پر رسائی حاصل کریں اور تعلیم کی اہمیت سے روشناس کرائیں، آگاہی کا پرچار کریں۔ خود اعتمادی کی دولت نچھاور کریں، عورتوں کو فرائض دیانتداری سے ادا کرکے نتیجہ اللہ پر چھوڑنے کی تلقین کریں اور گھر کیچ ار دیواری کے اندر شعور اور علم کی روشنی کا دیا جلائیں۔ جس کی روشنی سے کوئی چراغ جل اٹھیں۔ قدم مثبت راہ کی طرف ہونے چاہئیں، حوصلہ مضبوط ہونا چاہئے، دل ایمانی قوت سے بھرپور ہونے چاہئیں پھر دنیا کے دکھاوے کے لئے کسی مارچ پریڈ کی ضرورت نہیں، مدرٹریسا اور بلقیس ایدھی نے کسی مارچ پریڈ کا سہارا نہیں لیا۔ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کیا اور دنیا پھر ان کے ساتھ چل پڑی۔ کاش ہماری عورتیں یہ سب سمجھ سکیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں